Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 12, 2019

جمعہ نامہ۔۔۔۔دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں !



ازقلم: ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت 
==============================
شہریت ترمیم بل کے خلاف شمال مشرقی ہندوستان میں برہا ہونے والے پرتشدد مظاہروں نے امیت شاہ کی ہیکڑی نکال دی۔ جس مسلم دشمنی کی مدد سے شاہ نے اپنے سماج کو متحد کرنے کی کوشش کی اسی نے ہندو اتحاد کو پارہ پارہ کردیا اور اب یہ جن بوتل کے اندر جانے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بابری مسجد اور کشمیر کے مسئلہ پر جو ارنب گوسوامی بغلیں بجاتا تھا اب و ہ کاٹنے کو دوڑ رہا ہے۔حکومت کے آگے دمُ ہلانے والا پالتو اینکر ببانگ دہل تشدد کی آگ کو بجھانے کے بجائے اس میں تیل ڈال رہا ہے۔ ایوان میں کامیابی کے بعد میدان میں ہاتھ آنے والی مودی اور شاہ کی رسوائی میں یہ پیغام ہے کہ مشیت ایزدی کی لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اس کا شکاراپنی دشمنی میں اپنے خلاف سازش کرکےخودکی تباہی کا سامان مہیا کرتا ہے۔
سیرت کی کتابوں میں مدینہ کے اطراف بسنے والے ایک یہودی قبیلے بنو نضیر کا ذکر ملتا ہے۔ غزوہ احد کے بعد اس کی جرأت بڑھ گئی اوروہ کھلم کھلا عداوت و بد عہدی پر اتر آیا ۔ منافقین کے ساتھ ساز باز کرکے مسلمانوں کے خلاف مشر کین کی حمایت کرنے میں وہ اس حد تک بڑھ گیا کہ نبی ﷺ کو شہید کرنے کامنصوبہ بنا لیا۔ نبیﷺ اپنے چند صحابہ کرام کے ہمراہ جب اس سے بنو کلاب کے مقتولین کی دیت میں اعانت کےلئے بات چیت کرنے کے لیے تشریف لے کر گئے تو وہ تجویز پر بظاہر راضی ہوگیا۔آپﷺ ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا ئےان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے تو یہود پر شیطان سوار ہو گیا اور اس نے ناپاک منصوبے کو ان کے آگے خوشنما بنا کر پیش کیا ۔ چنانچہ یہود نے آپﷺ کے سر پرچکی گرا کر کچلنےکی سازش رچی ۔ اللہ نےرسول اللہ ﷺ کو یہود کے ارادے کی خبر دی ۔آپ ﷺ تیزی سے اٹھے اور مدینے کےلئے چل پڑے ۔مدینہ واپس آ کر آپ ﷺ نے انہیں خبردارکیا کہ اس بدعہدی کے بعد تم یہاں نہیں رہ سکتے اس لیے دس دن کی مہلت میں مدینہ سے نکل جاؤ ۔
بنو نضیر نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی باتوں میں آکر مسلمانوں سے مقابلہ آرائی کا ارادہ کیا اور جس انجام سے دوچار ہوئے اس پر ارشادِ ربانی ہے:’’وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اُن کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی‘‘۔ دنیا کے جن کمزور سہاروں پر اعتماد کیا جاتا ہے ان کے متعلق رب کائنات فرماتا ہے ’’ مگر اللہ ایسے رخ سے اُن پر آیا جدھر اُن کا خیال بھی نہ گیا تھا اُس نے اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے تھے پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو‘‘۔

 

میعاد کی تکمیل پر مسلمانوں کے لشکر نےبنو نضیر کا محاصرہ کرلیا تو وہ کھجور کے درختوں کی آڑ سے تیر چلاتے تھے اور جوابی کارروائی پر ان کے پیچھے چھپ جاتے۔ اس لیے ان درختوں کو کاٹنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ۔ اس پر سورۂ حشر کی پانچویں آیت میں بیان کردہ تبصرہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے :’’ (اے مومنو! محاصرہ کے دوران) جو کھجور کے درخت تم نے کاٹ ڈالے یا تم نے انہیں اُن کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو (یہ سب) اللہ ہی کے حکم سے تھا اور اس لئے کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل و رسوا کرے‘‘۔یہ آیت گواہی دیتی ہے جن لوگوں کے حق میں ذلت و رسوائی کا فیصلہ کردیا جاتا ہے تو اس کے لیے مناسب ماحول سازی بھی ہوجاتی ہے۔ اس موقع پر فرعون کا طرز عمل دیکھیں کہ پہلے تو جادوگروں کو بلا کر حضرت موسیٰ ؑ کو رسوا کرنے کی سعی کرتا ہے اور پھر بے کس مہاجرین کے تعاقب میں میخوں والا ایسی فوج کے ساتھ غرقاب ہوجاتا ہے جو تاحد نظر سمندر کی مانند نظر آتی تھی۔