Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 9, 2019

پارلیمنٹ میں امت شاہ کا انتقامی انداز۔۔۔۔۔۔بھارت کے لٸیے جن سنگھی راج کا ساٸرن۔!!!

از/سمیع اللہ خان/صداٸے وقت.
============================
 آج شہریت ترمیمی بِل پارلیمنٹ میں پیش ہوگیا، یہ بِل اگر قانون بن گیا تو مسلمانوں کا اس میں شدید نقصان ہے 
لیکن مسئلہ صرف اسی بِل تک نہیں ہے بات بہت دور تلک جا پہنچی ہے لیکن مسلمانوں کی غفلت پر جوں نہیں رینگتی .
 اس پورے قضیے میں ہمارے لیے  فکر انگیز تشویشناک پہلو وزیرداخلہ امت شاہ کے پارلیمانی بیانات اور ان کا دھمکی آمیز انتقامی انداز ہے 
 آج امت شاہ نے بِل پیش کرنے سے پہلے پارلیمنٹ میں اس کو جائز کروانے کے لیے پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے بنیادی ڈھانچے کی تعریف پڑھ کر سنائی جن میں یہ صراحت ہے کہ یہ تینوں ممالک Islamic Republic " اسلامی جمہوریہ " ہیں 
امت شاہ نے اپنے تینوں پڑوسی ممالک کے وجود سے جو کچھ استدلال کیا ہے اُس کا سیدھا مطلب یہی ہےکہ اگر پڑوس کے تین تین ملک اپنے بنیادی ڈھانچے کو اسلامی بنیاد پر قائم کرسکتےہیں تو پھر بھارت ہندو ازم کی بنیاد پر ہندوراشٹر ہوناچاہئے، امت شاہ کا انڈین پارلیمنٹ میں اس حد تک بیان دینا وہ بھی پیشگی تیاری کے ساتھ، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، بلکہ یہ مطلع صاف کررہاہے بھاجپا گورنمنٹ سخت مخالفتوں اور ہنگاموں نیز ملک کی بدترین معاشی صورتحال کے باوجود آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے پر استقامت کے ساتھ کام کررہی ہے اور وہ ہندوستان کو سیکولر اسٹیٹ سے ہندو اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتےہیں 
 امت شاہ نے اپنے بیان میں جس طرح پڑوسی ممالک کی تعریف " اسلامی جمہوریہ " سے کرتے ہوئے وہاں بسنے والے غیر مسلموں کو مظلوم اور پریشان حال ہونے کا استدلال کیا ہے اس سے یہ بھی صاف ہوجاتاہے کہ وہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے تئیں کیسی انتقامی اور دشمنانہ نفسیات رکھتےہیں 
امت شاہ نے تقسیم ہند کے تناظر میں بھی انتہائی غصیلے لہجے میں تقسیم کے لیے مذہبی بنیاد کا واویلا کیا ہے یہ وہی نفسیات اور درد کا اظہار ہے جو تقسیم کے وقت مذہبی بنیادوں پر بھارت کو ہندو اسٹیٹ کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے 
 یہ باتیں کہیں اور نہیں بھارت کے پارلیمنٹ میں ہورہی ہیں اسلیے خدارا اسے خوف اور ڈر کی عینک سے دیکھ کر بِدک جانے کی بجائے مستقبل کے اپنے متوقع غلامانہ وجود کو بچانے کی تشویش سے دیکھیے، یہ بھارت میں جن سنگھی سائرن ہے، 
سَنگھی فاشسزم بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتاہے وہ مسلمانوں کو ایسا مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں جن کی گھر واپسی ہوئی ہو، ایسے مسلمان جن کے نام اسلامی مگر تہذیب و معاشرت ہندوانہ ہوں، یہ ساری جدوجہد اسی سمت پر ہیں 

 ہندوستان کے موجودہ منظرنامے کو سمجھنے کے لیے تقسیم اور تقسیم سے پہلے ہزار سالوں سے جاری برہمنی بالادستی کے پجاری سامراج پر نظر دوڑائیے اور اسے موجودہ بھارت کے منظرنامے سے تطبیق دیجیے تو آپکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی کہ کس طرح ایک بالادستی اور نسل پرستانہ نظریے کی حامل قوم نے یہاں اپنے " منو وادی ہندووانہ سامراج " کو محض چند تعبیرات اور اصطلاحات کی تبدیلی کے ساتھ رائج حکومتی عرف میں نافذ کرنے کی پلاننگ اور اس پر مستقل عمل کیا ہے 
 انہوں نے بھارت کے اصل باشندوں کی لڑائی جو پہلے محض " پجاری برہمنوں " کے ساتھ تھی اس کا رخ " ہندو ۔ مسلم " کی طرف کردیا 
ستر سالوں سے جس نئے برہمنی نظام کے لیے جدوجہد کی جارہی تھی وہ اس کے بالکل قریب پہنچ چکےہیں 
اس پورے دورانیے کا بدترین اور شرمناک انقلابی پہلو یہ ہیکہ جو لوگ طویل عرصے سے شودر بن کر برہمنوں کے پجاری سامراج کے پنجوں میں سسک رہےتھے وہ اب ہندو بن کر انہی استعماری طاقتوں کی غلامی کررہےہیں جو لوگ اس ملک میں ان دونوں سے ہٹ کر اپنا مستقل اسلامی وجود رکھتے تھے وہ نئے شودر بنائے جارہےہیں اور پرانے شودر اپنے حقیقی دشمنوں کو آقا مان کر انہی کا بوجھ اپنے کندھوں پر برداشت کررہےہیں 
 لیکن حقیقت یہ ہےکہ منو سمرتی کے نئے ہندووانہ نظام میں پرانے اور نئے دونوں طرح کے شودر برابر کردیے جائیں گے، غلامی ذلت اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی ان دونوں کے لیے متوقع نظام میں برابر کی ہوگی_
 موجودہ سچویشن کو دیکھ کر اب خون ہی جلا رہےہیں جو کچھ لکھ رہےہیں اب وہ آنے والے مؤرخ کے لیے لکھ رہےہیں کیونکہ اپنا وجود بچانے کے لیے مطلوبہ شعور اب تک نئے شودروں میں پیدا نہیں ہوسکا منقسم ہندوستان کے سسٹم  میں ان کی حصولیابی اتنی بھی نہیں ہوپائی کہ وہ اپنے کسی ادنٰی سے مسئلے کو حل کرواسکیں، انہوں نے اجتماعی طورپر جن چند جزوی اور غیر ضروری مسائل کو اپنی قومی جدوجہد کا ہدف بنائے رکھا تھا اب ان کوششوں کا ناپائیدار کھلونا ہونا ثابت ہوچکا ہے

 *خدارا سب کچھ چھوڑ کر میدانِ عمل میں آئیے،* اب تو وقت بھی نہیں بچا ہے، سب کچھ دو دو چار کی طرح صاف ہورہاہے
*لیکن اب بھی کچھ انقلابی کوششیں ہوسکتی ہیں جو ہماری نسلوں کو اس ملک میں غلامی اور ذلت سے بچالیں_*

نوجوان شاعر نسیم خان جھنجھوڑ کر کہتاہے: 
 ہے یہی وقت کہ پھر بعد میں پچھتاؤ گے 
گر نہ بیدار ہوئے  اب بھی،  تو مر جاو گے 

*سمیع اللّٰہ خان*
جنرل سیکریٹری: کاروانِ امن و انصاف 
ksamikhann@gmail.com