Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 5, 2019

شہریت ترمیمی بل میں عیساٸیوں کی شمولیت؟؟اور گووالکر کے عیساٸیوں کے متعلق نظریات۔


شبیع الزماں (پونہ)/صداٸے وقت
=========(===(=================
 citizen amendment bill (ترمیم شہریت قانون )
لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں پیش ہونے والا ہے۔ اس قانون کے مطابق بنگہ دیش ،پاکستان اور افغانستان سے آئے ہوئے  ہندو ،سکھ،پارسی،بدھ،جین اور عیسائیوں کو ہندوستانی شہریت دی جاسکتی ہے ۔ اس میں مسلمان شامل نہیں ہونگے۔
مسلمان اس لسٹ میں شامل نہیں ہے یہ تو خیر سے سمجھ میں آتا ہے لیکن عیسائیوں کا نام اس لسٹ میں باعث حیرت ہے ۔ سنگھ کے لٹریچر میں جتنی نفرت مسلمانوں کے لیے ہے اتنی ہی نفرت عیسائیوں کے لیے بھی ہے ۔ گولوالکر bunch of thoughts میں لکھتا ہے " جہاں تک عیسائیوں کا معاملہ ہے ظاہری طور پر یہ بہت معصوم اور انسانیت کے لیے محبت رکھنے والے دکھائی دیتے ہیں۔ انکی تقریروں میں خدمت ،انسانوں کی نجات وغیرہ الفاظ سن کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ خاص خدا کی طرف سے انسانوں کی خدمت کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ وہ اسکول،کالج،اسپتال اور یتیم خانے چلاتے ہیں ۔ اس لیے ہمارے ملک کے سیدھے سادھے اور معصوم لوگ انہیں ویسا ہی سمجھتے ہیں جیسا وہ خود کو ظاہر کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کروڑوں روپیے خرچ کرنے کے پیچھے اصلی مقصد کیا ہے ؟ اسکا سیدھا جواب یہ ہے کہ وہ اس ملک میں مسیح کی بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ تمام مشنریوں کے مقاصد سیاسی ہیں انکا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سب اینٹی نیشنل ہیں ۔۔۔کسی نے سچ ہی کہا تھا سچا عیسائی ایک ہی تھا اور وہ سولی پر چڑھ گیا " 

اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتا ہے ۔
"مسیح نے اپنے ماننے والوں کو نصیحت کی تھی کہ مانگنے والوں کو اپنی ہر چیزدے دو ۔ لیکن اسکے ماننے والوں نے کیا کیا ؟ وہ خون دینے والے نہیں بلکہ خون چوسنے(blood suckers ) ثابت ہوئے ۔ یہ جہاں بھی گئے وہاں کی زمین کو آنسوؤں اور خون سے گیلا کردیا ۔ کیا ہم نے انکی دل دہلانے والی داستانیں نہیں سنی " ۔ 

گولوالکر کے مسیح کے ماننے والوں کے خلاف  اتنے سخت خیالات تھے ۔ سنگھ بھی ابتدائی زمانے میں عیسائیوں کو دشمن ہی تصور کرتی رہی لیکن دھیرے دھرے اسکی سختی مسلمانوں کے لیے بڑھتی گئی اور عیسائیوں کے لیے کم ہوتی گئی۔ 

مسلمان اور عیسائی دونوں بیرونی حملہ آور تھے لیکن سنگھ ایک سے شدید نفرت کرتا ہے اور دوسرے کے لیے نرم رویہ اپنا رہا ہے ۔ حالانکہ تاریخی اعتبار سے اسکی دشمنی عیسائیوں کے لیے زیادہ سخت ہونی چاہیے تھی۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر حملے ضرور کیے لیکن انھوں نے اس ملک کو سنوارا بھی ہے۔ اس ملک کی خدمت اور تعمیر میں مسلمانوں کا تاریخی رول ہے  ۔ علاؤالدین خلجی جس نے منگول کے قہر سے اس ملک کو محفوظ رکھا، سے لیکر اورنگ زیب عالمگیر تک، جنھوں نے ہندوستانی معیشت کو اپنے تاریخی عروج پر پہنچا یا۔ جن کے زمانے میں ہندوستان کا جی ڈی پی بین الاقوامی جی ڈی پی کا 26 فیصد تھا ۔مسلمانوں نے اس ملک کو سنوارنے میں ہر طرح سے اپنا کردار ادا کیا۔

 اسکے بر عکس برٹش( عیسائیوں) نے ہندوستان کو لوٹ کر اسکا جی ڈی پی 2 فی صد سے بھی کم پر پہنچا دیا تھا جس کو بڑی مشکل سے قابل ماہر معاشیات منموہن سنگھ نے 9 فی صد تک لے گئے تھے اور مودی حکومت اپنی حماقتوں سے پھر پانچ فیصد کے نیچے لے آئی۔

اسی طرح عیسائیوں نے جیسے کچھ مظالم ہندوستانیوں پر ڈھائے اسکی کوئی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ مسلمان بادشاہوں کے طرف سے جو بعض زیادتیاں ہوئیں وہ اسکا عشر عشیر بھی نہیں ہے جو انگریزوں نے یہاں کی ہے ۔ حیرت کی بات ہے آر آر ایس کو دو سو سال پہلے کی مسلمانوں کی زیادتیاں تو خوب یاد ہے لیکن 70سال پہلے کے انگریزوں کے مظالم دکھائی نہیں دیتے ۔

سنگھ کی اس فکری تبدیلی کی دو بڑی وجوہات سمجھ میں آتی ہے ۔
اول یہ کہ فاشزم کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اسے اپنی بقا کے لیے ایک اندرونی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کی کثرت تعداد اور تاریخی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے سنگھ کے لیے انہیں ویلن بنانا نسبتاً زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ 

دوسرے یہ کہ عیسائیوں کی عالمی سطح پر مضبوط حکومتیں قائم ہیں۔ عیسائیوں کودنیا میں سیاسی ،معاشی اور تہذیبی غلبہ حاصل ہے۔ بی جے پی،حکومتی سطح پر ان سے اچھے روابط کی خواہش مند ہے۔ اس لیے عیسائیوں کے خلاف حکومتی سطح پر کوئی اقدام کرنا آسان نہیں ہے ۔  سنگھ کو اس دباؤ کی بنا پر اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنی پڑی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اصل دباؤ، قوت کا دباؤ ہی ہوتا ہے ۔ دنیا نے ہمیشہ سے  طاقت اور قوت کے دباؤ  کو ہی تسلیم کیا ہے۔ تاریخ کے صفحات اسی کی کار فرمائی کے شاہد ہیں۔
اگر عیسائی بھی دنیا میں مسلمانوں کی طرح سیاسی حیثیت میں کمزور ہوتے ، مضبوط اور طاقتور حکومتیں انکی پشت پر نہ ہوتی تو شاید ہی دنیا کی کوئی طاقت انکے تعلق سے سنگھ کو اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کر سکتی تھی۔

@⁨+91 73502 34955⁩