Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 16, 2019

جمیعة العلمإ ہند نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ داخل کی۔

نٸی دہلی :صداٸے وقت /ذراٸع /16 دسمبر 2019.
===========================
 جمعیۃ علماء ہند نے آج شہریترمیمی ایکٹ ۲۰۱۹ء کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ پیٹیشن داخل کی ہے۔جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کے نام سے داخل کردہ پیٹیشن میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ اس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے کیوں کہ یہ ایکٹ دستور ہند کی دفعہ (۱۴)اور(۲۱) کے منافی ہے :اس ایکٹ میں’ غیر قانونی مہاجر‘ کی تعریف میں مذہب کی بنیاد پر تفریق برتی گئی ہے اور اس کا اطلاق صرف مسلمانوں پر کیا گیا ہے جب کہ ہندو ، سکھ ، بدھشٹ ، جین اور پارسی کو ’غیر قانونی مہاجر‘ کے دائرہ سے خارج کردیا گیا ہے جو کہ دستور ہند کی دفعہ (۱۴) سے متصادم ہے ۔ پٹییشن میں مزید کہا گیا ہے کہ دفعہ(۱۴) کے تحت اس ایکٹ میں کلاسیفیکیشن کا دعوی قابل فہم بنیاد پر نہیں ہے کیوں کہ بہت ساری مذہبی اقلیتوں بالخصو ص بہائی ، کالاش ، ذکری ( مہدوی )وغیرہ کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے حالاں کہ وہ بھی مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیاز کے شکارہوتے ہیں۔اس کے علاو ہ یہ حقیقت ہے کہ دستور ہند کا بنیادی ڈھانچہ سیکولرزم پر مبنی ہے ، اس ایکٹ میں اس اصل بنیاد کو ہی نقصان پہنچایا گیا ہے ۔پیٹیشن میں اس ایکٹ کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آسام میں این آرسی کی حتمی فہرست سے باہر ہونے والے ہندو مہاجر، شہریت ترمیمی ایکٹ کی دفعہ (۶بی ) کے تحت شہریت کا حق پاسکیں گے جب کہ اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنے والے مسلمانوں کو یہ حق نہیں ملے گا جو کہ سراسر عصبیت اور امتیاز پر مبنی ہے ۔ حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ آسام میں بہت سارے لوگ تکنیکی بنیاد وں پر شہریت ثابت نہیں کرسکے جن میں جہالت یا عمر و نام
 کے ہجے میں معمولی فرق بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت ہند نے پورے ملک میں این آرسی نافذ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ، ایسے میں اگر کوئی شخص دستاویز کی بنیاد پر شہریت ثابت نہ کرسکا تو وہ قومی رجسٹر برائے شہریت سے خارج ہو جائے گا ، اگر و ہ غیر مسلم ہوگا تو اسے اس ایکٹ کی دفعہ (۶بی ) کے تحت شہریت مل جائے گی اور اگر وہ مسلم ہو گا تو اسے محروم کردیا جائے گا ۔ قومی سطح پر ایسی کھلی تفریق نہ صرف آئین کی بنیا د پر غلط ہوگی بلکہ اس سے قومی اتحادمتاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
پیٹیشن میں کئی بین الاقوامی عہدناموں کے حوالے سے بھی استدلا ل کیا گیا ہے ، خاص طور سے انسانی حقوق کے یونیورسل ڈکلیریشن کا حوالہ دیا گیا ہے جس کی دفعہ (۱۵ )کے تحت مذکورہے کہ ہر شخص کو شہریت کا حق حاصل ہے اور کسی بھی شخص کو یک طرفہ طور سے اس کی شہریت سے محروم نہیں کیا جاسکتا ، اس کے علاوہ اس ایکٹ میں شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی عہدنامہ ( آسی سی پی آر) کی دفعہ( ۲۶) کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ان تمام استدلال کے ساتھ جمعیۃعلماء ہند نے عدالت عظمی سے اس ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی ہے
، آج جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ شکیل احمد سید نے رٹ پیٹیشن داخل کی ہے۔