Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 26, 2019

مشترکہ جدوجہد ۔۔۔۔۔۔۔ساجھا لڑاٸی۔

از/مولانا طاہر مدنی /صداٸے وقت۔
==============================
شہریت کےقانون میں ناروا ترمیم کے خلاف جو ملک گیر تحریک چل رہی ہے، اس کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ مشترک تحریک ہے، اس میں ہندو مسلم سب شامل ہیں اور یہ بہت ضروری ہے. کیونکہ یہ دستور بچانے کی لڑائی ہے، ملک کے وقار کے تحفظ کی جدوجہد ہے اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف سنگھرش ہے.
یہ اشتراک اور ساجھہ داری ہی اس تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہونچائے گی. اس کو مسلم بنام ہندو بنانے کی بہت کوشش کی گئی اور آئندہ بھی کی جائے گی. یہاں تک کہ کپڑوں سے پہچاننے کی بات کہی گئی لیکن ناکامی ہی ہاتھ آئی. ہندو اور مسلمان سب اس آندولن کا حصہ ہیں  اور جنگ آزادی میں جس طرح سے کندھے سے کندھا ملاکر چلے تھے، اسی طرح آج دستور بچانے کیلئے بھی سب ساتھ ہیں.
سی اے اے کی مخالفت اس لیے ہورہی ہے کیونکہ یہ دستور کی دفعہ 14 کے خلاف ہے جس میں سب کے ساتھ برابری کی بات کہی گئی ہے. یہ دستور مذہبی بنیادوں پر امتیاز کی نفی کرتا ہے. اس قانون میں مذہبی امتیاز کو ختم کرنا ہوگا اور پڑوسی ممالک میں تفریق مٹانی ہوگی.
جس طریقے سے پولیس اور سیکورٹی فورسز کی بربریت کے ذریعے اس تحریک کو دبانے کی کوشش ہورہی ہے وہ انتہائی قابل مذمت اور باعث تشویش ہے. مظاہرین پر پولیس تشدد کر رہی ہے، لاٹھی برسا رہی ہے، گولیاں چلا رہی ہے، مکانوں اور گاڑیوں میں توڑ پہوڑ کر رہی ہے اور شرپسند عناصر بھی پولیس کے بھیس میں وحشت و بربریت کا ننگا ناچ دکھا رہے ہیں، وہ بہت خطرناک علامت ہے، صرف یوپی میں پولیس کی گولی سے ایک درجن سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں.. وزیر اعلی کی ہدایت پر یوپی میں بڑے پیمانے پر انتقامی کاروائیاں کی جارہی ہیں، مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں، گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، ہر جانے کے نوٹس دیئے جارہے ہیں، ماورائے عدالت سب کچھ ہورہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ کسی پولیس اسٹیٹ میں سانس لے رہے ہیں.
افسوس کی بات ہے کہ اس ماحول میں وزیراعظم لکھنؤ تشریف لاتے ہیں تو سرکاری املاک کے اتلاف پر اظہار تاسف تو کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے لیکن انسانی جانوں کی ہلاکت پر  تاسف کا ایک لفظ بھی ادا کرنا گوارا نہیں کرتے. کیا اس عظیم ملک کے وزیراعظم کا یہی موقف ہونا چاہیے. جس تقریب کے حوالے سے موصوف کی تشریف آوری لکھنؤ ہوئی تھی وہ آنجہانی اٹل بہاری باجپئی سے منسوب تھی، جنہوں نے 2002 کے گجرات سانحے کے موقع پر راج دھرم نبھانے کی تاکید کی تھی اور کہا تھا کہ و دیش میں کیا منہ دکھاؤں گا,؟
ان نازک حالات میں بطور خاص میں نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ بہت صبر و تحمل، حکمت و فراست، دور اندیشی اور سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے. لڑائی بہت لمبی ہے. استقامت کی ضرورت ہے. تحریک کو صحیح رخ پر قائم رکھنے کیلئے بزرگوں کی سرپرستی لازمی ہے اور ایسے عناصر سے چوکنا رہنا ضروری ہے جو صف میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور تحریک کو بدنام کرتے ہیں اور پولیس کو بربریت کا موقع فراہم کرتے ہیں. ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا ہے، قربانی دینا ہے مگر جذبات میں نہیں بہنا ہے. اللہ سے دعا بھی کرنی ہے.
امتحاں ہے ترے ایثار کا قربانی کا
تیرے کردار کا، اخلاق کی تابانی کا...

طاہر مدنی 26 دسمبر 2019