Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, December 4, 2019

شہریت سے متعلق ترمیمی بل ملک کے لٸیے انتہاٸی خطرناک۔۔۔!


      از/ محمود احمد خاں دریابادی /صداٸے وقت۔
==============================
         سٹیزن شپ امینمنٹ بل مرکزی کابینہ نے پاس کردیا ہے، کسی بھی دن پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا ـ اس بل کی مکمل تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئی ہیں، بس وزیر داخلہ کی زبانی اتنا سب کو پتہ چلا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاھب کے لوگ جو بلا اجازت ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں سب کو ہندوستانی شہریت سے نوازا جاسکتا ہے ـ ......... اس طرح بی جے پی حکومت پہلی مرتبہ مذہب کی بنیاد پر گھس پیٹھیوں کے درمیان فرق کرکے اپنے ہندتوا کے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے جارہی ہے ـ ........ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اس بل میں شامل کیوں نہیں ہیں؟ .......... وزیر موصوف جواب دیتے ہیں کہ چونکہ مذکورہ ممالک مسلم اکثریتی ہیں اس لئے وہاں اقلیتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، اس لئے انسانیت کا تقاضا ہے کہ وہاں کے مظلوموں کو پناہ دیجائے ـ 

    یہاں پروزیر موصوف سے سوال کیاجانا چاہیئے کہ یمارے پڑوس میں صرف مسلم اکثریتی ممالک ہی نہیں ہیں، بلکہ چین اور میانمار جیسے بدھسٹ اور کمیونسٹ ممالک بھی ہیں، وہاں کی اقلیتوں پر جس طرح کے ہولناک وحشیانہ مظالم ہورہے ہیں کیا وہ مظلوم رعایت کے مستحق نہیں ہیں ؟ ان کو پناہ دینے میں آپ کی انسانیت کہاں چلی جاتی ہے ؟ کیوں روہنگیا مسلمانوں اور چین میں  ایغور کے مظلوموں کو کیوں اس بل سے باہر رکھا جارہا ہے ؟؟

    ہم یہ بات مان سکتے ہیں کہ پڑوس کے مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ظلم ہورہا ہے ان کومظلوموں کو پناہ دینا چاہیئے، مگر کیا وہاں صرف اقلیتوں پر ہی ظلم ہورہا ہے؟ ........ احمدیہ کمیونٹی بھی  اپنے کو مسلمان کہتی ہے مگر پاکستانی دستور ان کو مسلمان نہیں مانتا، ان کے ساتھ مبینہ طور پر جو ہورہا ہے وہ کیا آپ کے سامنے نہیں ہے؟ بلوچستان کے رہنے والے جن کے بارے میں خود ہمارے وزیر اعظم نے لال قلعے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ خیر سگالی کا اظہار کیا تھا وہ کیوں اس بل سے باہر ہیں ؟ افغانستان اور پاکستان میں ہزارہ قبیلے کے لوگوں پر وحشیانہ سلوک کی داستانیں میڈیا میں آتی رہتی ہیں اُن بےچاروں پر انسانیت کی بارش کیوں نہیں ہوگی ؟
     واضح رہے کہ مذکورہ بالا تمام طبقات پر اُن کے یہاں صرف مذہبی بنیادوں پر ہی مظالم ڈھائے جارہے ہیں، .........  تو کیا اب مظلوموں کے درمیان صرف اس لئے فرق کیا جائے گا کہ وہ ہندو سکھ وغیرہ نہیں بلکہ مسلمانوں جیسے نام رکھتے ہیں؟

      حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے سارے سمجھ دار یہ جانتے ہیں کہ اس بل کے پیچھے سیاست بھی کارفرما ہے، ایک سروے کے مطابق اس وقت تقریبا  33 ہزار غیر مسلم ایسے ہیں جو غیرقانونی  طور پر ہندوستان میں مقیم ہیں، ان میں سکھ صرف ایک عدد ، بدھسٹ دو اور جین دو عدد ہیں، باقی سب کے سب ہندو ہیں، ان بنگلہ دیشی ہندووں کی سب سے بڑی تعداد بنگال میں ہے ـ  جلد ہی وہاں  الیکشن ہونے ہیں، بی جے پی چاہتی ہے کہ ان تمام بنگالیوں کو ہندوستانی شہریت دے تاکہ آنے والے الیکشن میں اُن کا ووٹ حاصل کرکے ممتا بنرجی کو شکشت دی جائے ـ

    ممکن ہے اس بل کے پاس ہونے کے بعد بھاچپا بنگال کو جیت لے ـ مگر اس بل کے بعد ہمارے ملک کا آپسی تانا بانا تو خراب ہوہی جائے گا ساتھ ہی ملک کی سالمیت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے ـ

   آج ہمارے ملک کی اقتصادی حالت سب کے سامنے ہے، سبرامنیم سوامی کے مطابق مملک کی dgp گھٹ کر صرف ڈیڑھ بچی ہے ـ لاکھوں نوجوانوں کی نوکریاں چھوٹ گئی ہیں، ملک کے زوزمرہ کے اخراجات کے لئے ایک لاکھ چھتر ہزار کڑوڑ زبردستی رزرو بنک سے حکومت نے حاصل کئے ہیں ـ ایسے میں ہزاروں غیر ملکیوں کی بھیڑ ہمارے ملک کے زرایع امدنی،  روزگار اور نوکریوں پر قبضہ کرنے کے لئے آجائیگی تو یہ ملک کیسے بچ پائے گا ـ

     اسی لئے ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستیں آسام وغیرہ کے لوگ بلا تفریق مذہب اس بل کی سڑکوں پر اُتر کر شدید مخالفت کررہے ہیں، .......... حالات مزید خراب نہ ہوں اس لئے حکومت کو اعلان کرنا پڑا ہے کہ اروناچل، ناگالینڈ جیسی شیڈول 6 والی ریاستوں میں یہ بل نافذ نہیں ہوگا ـ

     خدانخواستہ یہ بل پاس ہوگیا توہمارے پڑوس کی وہ طاقتیں ہمارے ملک کو توڑنا چاہتی ہیں ان کے لئے آسانی ہوجائیگی، آج کے زمانے میں جعلی دستاویز تیار کرنا کیا مشکل ہے، پاکستان کی آئی ایس آئی جعلی دستاویز کے ساتھ ہندو بناکر اپنے ایجنٹوں کو داخل کرسکتی ہے، وہ یہاں کی شہریت حاصل کرنے بعد یہاں کی پولیس، خفیہ فورس اور فوج میں بھی نوکری حقدار ہوجائینگے اور ہمارے خفیہ راز دشمنوں تک پہونچائیں گے ـ

    اس لئے سٹیزن شپ امینمنٹ بل کو صرف مسلم مخالف نقطہ نظر سے نہ دیکھاجائے بلکہ یہ ہندوستان کی سلامتی، سالمیت اور یکجہتی کے لئے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ـ تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیئے کہ ووٹ بنک کی سیاست سے اوپر اُٹھ کر اس کی پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک بھر پور مخالفت کریں ـ 

    ہندوستان سے محبت کرنے والے تمام لوگ، تمام این جی اوز، میڈیا اور شوشل میڈیا میں لکھنے والے تمام صحافی، دانشور، اساتذہ، وکلا اور کالجوں کے طلبا کو بھی ملک کو بچانے کے لئے آنا چاہیئے ـ ..............  یاد رکھئے یہ ہندو مسلم مدعا نہیں ہے پورے دیش کو بچانے کا معاملہ ہے،.......... اب دیکھنا ہے دیش بھگتی کا دعوی کرنے والے کتنے دعویدار آگے آتے ہیں ـ .......... بی چے پی سے بھی ہم اپیل کرتے ہیں کہ ملک کے لئے خطرناک ثابت ہونے والے اس بل کو فورا واپس لے کر اپنی دیش بھگتی کا ثبوت پیش کرے ـ