Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 29, 2019

یوپی کے پریشان حال مسلمان اور مسلم لیڈران کی خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اتواریہ۔

از/ شکیل رشید /صداٸے وقت۔
==============================
یوپی اسمبلی میں ۲۳ مسلمان اراکین اسمبلی ہیں۔
یہ تعداد ۲۴ تھی مگر رامپور کے رکن پارلیمنٹ اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم خان کی رکنیت عدالت سے رد ہونے کے بعد تعداد ۲۳ رہ گئی ہے۔ پارلیمنٹ میں یوپی سے چھ مسلمان پہنچے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی رکن اسمبلی او رنہ ہی ایم پی اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں شامل تھا جو یوپی کے ان اضلاع میں پہنچی تھی جہاں پولس پر گھروں کے اندر گھس کر عورتوں، بچوں، بوڑھوں سے مارپیٹ، لوٹ پاٹ اور احتجاجیوں ومظاہرین پر گولی باری کا الزام ہے۔
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے !
وہ علمائے کرام  جو ’قیادت‘ کا دعویٰ کرتے ہیں انہو ںنے تو پہلے ہی مظلومین تک پہنچنے کی کوئی کوشش نہیں کی، ہاں اپنے چیلے چپاٹوں کو ضرور بھیج دیا۔ مسلم دانشوران بھی غائب رہے، پروفیسر صاحبان بھی اور ادیب بھی۔ اگر کوئی ان تک پہنچا تو وہ سوراج ابھیان کے لیڈر یوگیندر یادو تھے، کمیونسٹ پارٹی کی جرأت مند خاتون لیڈر کویتا کرشنن تھیں اور اکٹی وسٹ ہرش مندر تھے۔ ہاں ان کے ساتھ ندیم خان بھی تھے بلکہ وہ ہرموقع پر ساتھ ساتھ رہے۔ ان کا تعلق ’یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ‘ سے ہے۔ انہو ںنے پولس کے مظالم کی تفصیلات پیش کیں، انہوں نے بتایاکہ پولس نے دہشت کا راج طاری کردیا ہے او رکسی کو بھی بخشا نہیں جارہا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ آر ایس ایس کے رضا کار بھی پولس والوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث ہیں۔ انہوں نے ہی بتایاکہ مسلم محلوں میں رات بھر جاگ جاگ کر لوگ اپنے گھروں کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ اگر کسی جانب سے حملہ ہوتو دفاع کیاجاسکے۔ اور پولس کی زیادتی کس پائے کی ہے اس کی مثال بھی انہوں نے ہی دی۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ سے ہی پتہ چلا کہ ’’پولس نے ایک لاکھ نامعلوم ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، اور یہ اندراج ایک ہفتے کے دوران کیے گئے ہیں، صرف کانپور میں ہی درج ہونے والی ایف آئی آر کی تعداد 22500ہے! مظفر نگر میںیہ تعداد 5500 ، میرٹھ میں 5 ہزار اور بہرائچ میں 2200 ہے‘‘۔
اتنی بڑی تعداد میں یہ ایف آئی آر جو درج کی گئی ہیں، ان سے متاثر مسلمان بھی ہوں گے اور وہ برادران وطن بھی جو مظاہروں میں شامل ہیں۔ پر مسلمانوں پر سب سے زیادہ آفت آئے گی کیو ںکہ یوگی نے تو ان ہی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ کیو ں یہ مسلم اراکین اسمبلی، ممبران پارلیمنٹ اپنے بلوں میں گھسے ہوئے ہیں؟ کیوں  ایس پی اور بی ایس پی جیسی سیاسی جماعتیں سڑکو ںپر نہیں اتر رہی ہیں؟ کانگریس کو اس لیے کچھ نہیں کہنا کہ پرینکا گاندھی نےپریشان حال مسلمانوں کی خبر لی ہے، دورہ کیا ہے اور بعد کے دوروں سے انہیں یوگی سرکار نے روکا بھی ہے۔ کیا خود کو سیکولر اور جمہوریت پسند بتانے والی سیاسی پارٹیوں ، اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ کا سارا جوش وخروش مسلمانوں کے ووٹوں کے حصول تک ہی محدود ہے، انہیں مسلمانوں کی حالت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے؟