Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 26, 2019

آٸین کی حفاظت اور ملکی مفاد میں مسلمان اتحاد کا ثبوت پیش کریں،اپوزیشن کے موقف کا کھل کر ساتھ دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مفتی اشفاق احمد اعظمی۔

اعظم گڑھ۔۔۔اتر پردیش /صداٸے وقت /نماٸندہ۔
==========================
ملک میں شہریت ترمیمی قانون کو لیکر گھماسان مچا ہے ، مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر طاقت کے بل حکمراں جماعت قانون کو ماننے پر مجبور کرنیکے لۓ پوری مشینری لگاۓ ہوۓ ہے ، اپوزیشن کے سچ کو جھوٹ بتانے پر بضد ہے ، ایسی صورت میں مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے اپنے تحفظ کو یقینی بنانا چاہۓ ہر طرح کے اشتعال اور اکسانے کے عمل سے دور رہنا چاہۓ ، یقینا یہ سیاہ قانون مسلمانوں کو نشانہ بناکر تفریق پر مبنی ہے ، دیگر اقلیتوں کو خوش کرنیکا خوبصورت ذریعہ ہے ، جس کا فخر اور گھمنڈ سے برملا اظہار بھی کیا جاتا رہا ، مگر چال الٹی پڑ گٸ آسام میں جن لوگوں کو خوش کرنے اور شہریت دینے کے لۓ سب کچھ کیا وہی لوگ ناخوش ہوگۓ ، اور شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آۓ ، اور بتادیا کہ تیرہ لاکھ کو اگر شہریت اس قانون کے سہارے دی گٸ تو چھ لاکھ کو شہریت اسی قانون کے ذریعے چھین لی جاۓ گی ،

اس لۓ یہ کہنا کہ قانون
صرف شہریت دینے والا ہے چھیننے والا نہیں ہے دھوکہ ہے ، سچ یہ ہے کہ یہ قانون شہریت دینے اور چھیننے والا دونوں ہے ، یہ آٸین کے خلاف تفریق پر مبنی ہے ، ایک ہی بنیاد پر کسی کو شہریت دیتا ہے اور کسی سے چھینتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ملک کی یونیورسٹیوں میں بلا امتیاز مذہب و ملت ملک کے مستقبل کا عظیم سرمایہ طلبہ مخالفت میں ایک آواز ہوکر نکل پڑے ، اور اس بات کو صاف کردیا کہ یہ قانون ملک کے آٸین اور دفعات کے خلاف ہے ، آٸین ہند کی پاسداری ہمارا ھدف ہے ، یہ لڑاٸ ہندو مسلمان کی نہیں ہے ہم آر ایس ایس کے نظریہ ہندو راشٹرکی مخالفت میں ، اسی طرح مرکزی حکومت اس مسٸلے کو صرف مسلمانوں کے مسٸلہ بنانے میں ناکام رہی اور ملک میں آٸین کی پاسداری اور سیاہ قانون کی مخالفت میں ہوا چل پڑی ،حکومت نے اس کو طاقت سے دبانا چاہا ملک کی آواز سننے کے بجائے الزام تراشیاں شروع کردیں اور ایک مخصوص طبقہ کو انتقام کا نشانہ بنایا اور سرکاری وعوامی نقصانات ہوئے مرکزی حکومت کی ناعاقبت اندیشی سے عوام کو اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا جو وطن کی حفاظت میں شہادت کا درجہ رکھتا ہے مگر مرکزی خاص طور پر اتر پردیش سرکار من گھڑت کہانیاں سناکر ایک مخصوص طبقہ کو ہراساں کر رہی ہے اور خوف ودہشت کے ماحول میں جینے پر مجبور کررہی ہے ، ہر شہری کو اتفاق اور عدم اتفاق کی آزادی ہے ، حکومت اس آزادی کو چھیننا چاہتی ہے اور سب کو ایس مین ( Yes Man) بناکر رکھنا چاہتی ہے No کہنے پر ہر طرح کی پابندی لگارکھی ہے دونوں جبکہ آٸین میں ہر ایک کو اپنی بات رکھنے اور اظہار کی آزادی ہے صرف اس کے لۓ طریقہ پر امن ہو تشدد کا موقع کسی کو نہ ملے عوام اور انتظامیہ دونوں کی ذمہ داری ہے ، پارلیمنٹ کا احترام حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے ممبران سے ہوتا ہے ، پارلیمنٹ میں دونوں کا حق برابر ہے دونوں کے لۓ آٸین کی پاسداری پارلیمنٹ کی عزت ہے اور آٸین کی خلاف ورزی پارلیمنٹ کی ذلت ہے دونوں کے موقف کا درجہ برابر ہے اس لۓ یکطرفہ اپوزیشن کی آواز کو دبایا اور کچلا نہیں جاسکتا ہے ، مسلمانوں کو اپوزیشن کا ساتھ متحد ہوکر دینا چاہۓ اور اپنے موقف کا برملا اظہار کرنا چاہۓ اپوزیشن پارٹیوں کو ساتھ لیکر اپنے موقف کے لۓ بیداری پروگرام کرنا چاہۓ امکانی حد تک دھرنا پردرشن جلوس وغیرہ جہاں سے اشتعال پیدا کرنیکا غلط عناصر کے ذریعے موقع ملتا ہے احتساب کرنا چاہۓ ملک کا مزاج بدل رہا ہے مسلمانوں کو اپنا مزاج بدلنا چاہۓ کہ مسلمان 20 فیصد ہے تو اسی فیصد کی ضرورت کی تکمیل کے لۓ برادران وطن کو ساتھ لینا ضروری ہے ،ہم مزاج اس لۓ اپوزیشن کو ساتھ لیکر منزل تک پہونچنا آسان ہوگا ، اکیلے چلنے میں کچھ ہاتھ نہیں لگے گا اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی راہ آسان ہوگی ، جھارکھنڈ کے نتاٸج سے سبق حاصل کریں اکیلے کی سیاست نے آٹھ سیٹوں پر بی جے پی کی کامیبابی کی راہ آسان کی تو تین سیٹوں پر اپوزیشن کو نقصان پہونچا اور اپنے ہاتھ کچھ نہیں لگا ، نتیجة مسلمانوں کی طاقت کمزور ہوگٸ اس لۓ یہ وقت ساتھ چلنے اور ساتھ دینے اور ساتھ لینے کا ہے ، دانشمندی اور حکمت عملی کا ہے ہر اس طریقہ کار سے مسلمان احتراز کرے جو ملک و ملت کے لۓ نقصان دہ ہوسکتا ہے اور جس سے اس کو نشانہ بننے کی مار جھیلنی پڑسکتی ہے