Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 14, 2019

آخر ہمارا احتجاج موثر کیوں نہیں ؟؟؟

صداٸے وقت/نماٸندہ۔
==============================
جس دن سے C, A, B  راجیہ سبھا سے پاس ہوا ہے اس دن سے آج بروز سنیچر بتاریخ 14 دسمبر تک کم از کم سو احتجاجی جلوس مسلمانوں نے ملک بھر کے مختلف اضلاع اور شہروں سے نکالے ہوں گے۔ گزشتہ کل یعنی 13 دسمبر بروز جمعہ کو تو ہندوستان کا کوئی ایسا بڑا شہر نہیں ہوگا جہاں سے کم از کم دوچار ہزار لوگوں کی تعداد میں احتجاجی ریلی نہ نکالی گئی ہو، مگر ان سب کے باوجود نیشنل میڈیا نے چپی سادھ رکھی ہے، نہ تو ان ریلیوں کی کوئی تصویر دیکھائی گئیں اور نہ ان پر کسی طرح کی گفتگو ہوئی۔ 

 *احتجاج کا مقصد کیاہے؟؟؟* 
ان تمام احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم سب اس *تاناشاہی حکومت* کو یہ بتاسکیں کہ یہ بل ہمیں منظور نہیں، ہم سب اس بل کی مخالفت کرتے ہیں، لھذا اسے واپس لیاجائے۔ 
ہمارے اس پیغام کو حکومت تک پہنچانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے نیشنل میڈیا، جب یہ چینل ہمارے احتجاجات کو کَوَر کریں گے تبھی ہماری بات حکومت تک پہنچ پائے گی ورنہ ہمارے احتجاج کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔

 *دوسرا طریقہ اپنایا جائے* 
لگتاہے کہ ہمیں اپنی آواز اس ظالم وجابر حکومت تک پہنچانے کے لیے کوئی دوسرا طریقہ اپنانا پڑےگا۔ واضح رہے کہ اب تک وہی احتجاج کامیاب ہوتا ہوا نظر آیاہے جس میں احتجاج کے ساتھ ساتھ *بندی(Strike)*  کا بھی اعلان کیا گیا ہو۔ آپ ماضی کے کسی بھی احتجاجی دھرنے یا جلوس کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلےگا کہ بیشتر احتجاج اور دھرنے صرف صدائے بازگشت بن کر رہ گئے، نہ تو ان احتجاج کرنے والوں کی طرف حکومت نے توجہ دی اور نہ ان کے مطالبات پورے کیے گئے، مگر جن دھرنوں یا احتجاجی ریلیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر بندی کا اعلان کیا گیا، حکومت کو فورا ان کے مطالبات سننے پڑے اور بہت سی باتوں پر عمل درآمد بھی ہوا۔ مثال کے طور پر 2018 میں ہوئے *ایس سی، ایس ٹی* کے احتجاج اور بندی کو دیکھ لیجئے۔ 

 *ہمارا لائحہ عمل*
اگر ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہماری بھی بات سنے اور اپنے بنانے ہوئے *کالے قانون* پر نظر ثانی کرے تو اب ہمیں بھی اتحاد واتفاق کے ساتھ پورے ملک میں بندی کا اعلان کرنا پڑےگا، اور بندی بھی صوبوں میں ترتیب وار ہونی چاہیے مثلا ایک صوبہ میں آج بندی ہے تو دوسرے میں کل اور تیسرے میں پرسو ہو، اس طرح اگر پورے ملک میں بندی کی جائے تو بالترتیب ایک ایک صوبہ کرکے تقریبا ایک مہینہ تک ملک میں بندی رہےگی ، پھر تو نیشنل میڈیا کے لیے اس سے بڑا *بریکنگ نیوز* نہیں ہوگا 24 گھنٹہ میں کم از کم 12 گھنٹے چینلوں میں صرف اسی پر بحث ہوگی، جیسا کہ آج کل آسام اور میگھالیہ کے بارے میں دیکھا جارہاہے اور ساتھ ہی اس لمبی بندی کا اثر براہ راست شیئر مارکیٹ، اور معاشیات پر زور دار پڑےگا، پھرحکومت کے پاس ہماری بات سننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جائےگا، اگر بالفرض ان حالات کے بعد بھی حکومت متوجہ نہ ہوئی تو *عالمی معاشیاتی تنظیموں* کا دباؤ اس قدر ہوگا کہ یہ لوگ برداشت نہیں کرپائیں گے۔ 

 *آسام اور میگھالیہ کا جائزہ لیجیے* 
ابھی تک صرف دو اسٹیٹ یعنی آسام اور میگھالیہ کے بعض شہروں میں بندی ہوئی تو پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے،  جاپان کے صدر نے اپنے ہندوستانی دورے کو منسوخ کردیا، امریکہ کی بعض تنظیمیں *امت شاہ* پر روک لگانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔
 *پھر ذرا سوچیں!!!* کہ اگر یکے بعد دیگرے پورے ملک میں بندی ہو تو *ان بھگوادھاریوں کا کیا ہوگا؟؟؟*  
اگر یہ آئیڈیا کامیاب ہوا تو یقین مانیں کہ حکومت کو اپنا نظریہ بدلنا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ عزوجل 

 *طریقہ کار*
پورے ملک میں بندی کا اعلان کرنے کے لیے صرف سوشل میڈیائی جہاد سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ واقعی میدان عمل میں اترنا پڑےگا اور اگر تھوڑی سی بھی محنت کی جائے تو ہمارے مقصود کو پورا ہونے سے کوئی نہیں روک سکےگا۔  

 *چند باتیں پیش نظر ہوں* 
 *1* جن صوبوں میں بندی کروانی ہے پہلے ان کی مسلم تنظیموں اور غیر بی جے پی سیاسی پارٹیوں سے رابطہ کرنا پڑےگا، اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے مدد مل پانا مشکل ہے تو آپ کی یہ سوچ غلط ہے، کیونکہ سیاسی پارٹیاں ایسے موقعوں کی متلاشی رہتی ہیں جن کے ذریعہ وہ عوام کا بھروسہ جیت سکیں۔ جیسے لالو پرساد یادو کے بیٹے تیجشوی یادو نے کل خود ہی اپنی جانب سے بہار بندی کا اعلان کردیاہے۔ 

 *2* بندی کا اعلان بندی سے کم از کم ایک ہفتہ پہلے کریں اور پھر اس صوبہ کے تمام اضلاع کے علماء کرام اور سماجی وسیاسی شخصیات سے رابطہ کرکے انہیں تیار کریں۔ 

 *3* ایک ہفتہ قبل ایک پریس کانفرنس بلاکر بندی کا اعلان کیاجائے ساتھ ہی اردو ہندی اور مقامی زبان والے اخبارات کا بھی سہارا لیاجائے تاکہ کم ازکم پورے صوبے میں یہ بات پھیل سکے ،اس سے لوگوں سے رابطہ کرنے میں اور بھی آسانی ہوگی۔

 *صوبہ بندی* *(State strike* )

صوبہ بند کا مطلب یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ اس صوبہ کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں کو بند کرنا پڑےگا، بلکہ صوبہ بند کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس صوبے کے مشہور اضلاع اور شہروں میں بندی کردی جائے،  مثلا اگر آپ کو *بہار بند* کا اعلان کرنا ہے تو *برونی، سمستی پور، دربھنگہ، مظفر پور، پٹنہ اور چپرہ* کو بند کرنا کافی ہوگا۔ اسی طرح اگر بنگال بندی کرنی ہو تو *کولکاتہ، کھڑگ پور،  آسنسول، مرشدآباد، مالدہ اور سیلی گوری* کی بندی کافی ہوگی۔ 
 *صوبہ بند*(state strike) کا مطلب ہی یہی ہوتاہے کہ صوبے کے مشہور پانچ، سات شہروں کو بند کردیا جائے۔

 *نوٹ* : اگر اس طریقے کو اپنایا جائے تو اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ ہم حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرلیں گے، ورنہ دوسری کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ *صدر جمہوریہ* کے دستخط کے بعد یہ بل صرف بل نہیں رہا بلکہ ایک قانوں بن چکاہے اور قانون بدلنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ ہم سب سمجھ رہے ہیں۔ 
خدارا سوشل میڈیا کے غیر مفید بلکہ بے جا بحث ومباحثہ اور ایک دوسرے پر لعن وطعن سے پرہیز کریں اور اپنے اپنے کام پر لگ جائیں ورنہ خاموشی سے اپنی ہلاکت وبربادی کا تماشہ دیکھتے رہیں ۔ 

ان شاءاللہ عنقریب ان ساری تفصیلات پر مبنی ایک ویڈیو بنایا جائے گا تاکہ پڑھے لکھے اور ان پڑھ تمام لوگوں تک یہ باتیں پہنچ سکیں۔ 

ازقلم : *فداءالمصطفی قادری مصباحی* 
خادم الافتاء*شرعی عدالت* سنکیشور کرناٹک