Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 31, 2019

مودی سرکار کے خلاف پہلی عوامی تحریک۔۔۔طالبات و طلبہ نے جو پہل، کی با شعور عوام نے اس کو طاقت دی۔


از سید منصورآغا، نئی دہلی/صداٸے وقت۔
==============================
شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو.
 شہریت قانون ترمیمی بل (اب ایکٹ) کیخلاف احتجاج کا سلسلہ 4/دسمبرکو آسام اورپھر تریپورہ وغیرہ شمال مشرقی ریاستوں سے شروع ہوا۔ 13/دسمبرکو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء نے اسکے خلاف ایک پرامن مارچ نکالا۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ جامعہ کی تاریخ،ہماری تحریک آزادی کا ایک زریں باب ہے۔ اس کے نام کے ساتھ اگرچہ’اسلامیہ‘شامل ہے، لیکن اس کے کردار کی عظمت اور نظریہ کی وسعت یہ ہے کہ پہلے دن سے ہی اس نے بلاتفریق مذہب وملت ہر قوم کے افراد کو اپنے دامن میں سمیٹا ہے۔ اس کے بانیوں میں مولانا آزاد،شیخ محمودحسن، حکیم اجمل خاں، مولانا محمد علی جوہروغیرہ کے ساتھ گاندھی جی کا نام بھی نمایاں ہے۔ وہ گجراتی تھے۔برطانیہ میں پڑھے تھے۔ تاجرگھرانے سے تعلق تھا۔بقول امت شاہ ’وہ بڑے چَتُر بنیا تھے۔‘بیشک وہ دوراندیش سیاستداں تھے۔ اسی لئے جامعہ کی تحریک کے ساتھ جڑے۔
جامعہ کی تعلیمی بنیادیں استوارکرنے والوں میں ڈاکٹرذاکر حسین، مختاراحمدانصاری اور عابد حسین جیسی شخصیات کا خون جگرشامل ہے۔ یہ ہمارے ملک اورقوم کے وہ روشن ستارے ہیں، جن کی نظرمیں کسی ایک فرقہ کی نہیں، پورے ملک کی عظمت اوربہبود مقدم تھی۔ مسلم ذہن کو جدید تعلیم سے روشناس کرانابھی اسی فکرمندی کا حصہ ہے۔ مگر اس طرح کہ قدیم صالح قدریں، جن کی بنیادیں اسلامی معاشرت میں ہیں، منہدم نہ ہونے پائیں بلکہ مستحکم ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ آج بھی انہی قدروں کا پاسبان ہے۔ اس کے طلباء میں 50فیصد غیرمسلم ہیں۔اساتذہ اوراسٹاف میں بڑی تعداد میں دیگر قوموں کے افراد ہیں۔اورسب گھل مل کررہتے ہیں۔ اس میں بی ایچ یوکی طرح کوئی فیکلٹی ایسی نہیں جس میں غیرمذہب کا داخلہ ممنوع ہو۔ حتیٰ کہ اردو، فارسی اورعربی ہی نہیں، شعبہ اسلامیات بھی سب کیلئے کھلا ہے۔
جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اوراساتذہ احتجاج کرنے نکلے، تب وہ کسی ایک فرقہ کے درد میں نہیں بلکہ ایک صالح قومی نظریہ کی حفاظت کیلئے نکلے تھے، اوربلاتخصیص تمام فرقوں، علاقوں اور مذہبوں کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں قدم سے قدم ملاکر نکلے تھے۔ میں دل کی گہرائیوں سے جامعہ کے بانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اوران طلباء وطالبات، اساتذہ اور اسٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنہوں نے شہریت ترمیمی بل پر، جو دراصل ہماری قومی روح کو مجروح کرتاہے، پرامن احتجاج کی ٹھانی۔ احتجاج کایہ طریقہ ہمیں اپنی تحریکِ آزادی سے ورثہ میں ملا ہے۔جامعہ کو اس ورثے میں کچھ زیادہ حصہ ملاہے۔ یقینا اس احتجاج سے جامعہ کے بانیوں، خیرخواہوں اورفیض پانے والوں کی روحوں کو بڑاسکون ملا ہوگا کہ جامعہ نے اس سبق کو پھردوہرایا ہے جس سے اس کی بسم اللہ ہوئی تھی۔ شاباش طلباء وطالبات، جو اس میں شامل ہوئے پولیس کی زیادتیوں کے باوجود عدم تشدد کی راہ پر اٹل رہے، بالکل گاندھی جی کی طرح۔خاص طورسے طالبات نے مضبوط رویہ اختیار کیا۔ہم جے این یواورمسلم یونیورسٹی کے جیالوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اگرانہوں نے جبراورظلم کے اس اندھیرے میں اپنے ضمیر کی شمعیں روشن نہ کی ہوتیں تو ممکن ہے کہ تحریک کچل دی جاتی۔ 
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیں ان کے پس پشت وہ مصلحت نظرنہیں آتی جو خالق کائنات کی نظر میں ہوتی ہے۔ بھلا غورکیجئے اگر’اوپر‘ کے اشارے پر پولس نے جامعہ کے طلباء کے ساتھ زیادتی نہ کی ہوتی، غیرقانونی طورسے یونیورسٹی کمپس میں گھس کرلائبریری، مسجد اورٹائلٹس میں مارپیٹ اورتوڑ پھوڑ نہ کی ہوتی تو کیا اس مہم کو ایسی قومی تائید مل جاتی کہ کم وبیش 33 یونیورسٹیوں کے طلباء حمایت میں نکل آئے۔ان میں سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ بیرون ملک بھی احتجاج کی جھڑی سی لگ گئی۔اس کی بدولت سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ نے دیکھا بڑے بڑے شہروں میں ہی نہیں قصبوں اوردیہات تک میں اس شمع کی شعائیں پہنچیں، حالانکہ کال دینے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسے پرہجوم مظاہرے ہوئے کہ حکومت ہڑبڑا گئی اوربھاجپا کی سرکاروالی ریاستیں تشدد پر اتر آئیں۔
 جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کی یہ تائید وحمایت دراصل اس قومی نظریہ کی تائید ہے جس کی بنیاد پرہم نے آزادی کی جنگ جیتی تھی۔ بھلا یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے جنہوں نے تحریک آزادی کی مخالفت اورفرنگیوں کی حمایت کی تھی۔ آخرڈی این اے بھی توکوئی چیز ہے۔نوٹ کیجئے احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات صرف بھاجپا سرکار والی ریاستوں میں ہوئے۔ شواہد بتارہے ہیں کہ زیادتی پولیس یا اس کے گماشتوں نے کی۔د ہلی میں بسیں بھی کسی اورنے جلائیں۔تقریباسبھی موتیں پولیس کی گولی سے ہوئیں۔ سب سے زیادہ 19یوپی میں جہاں وزیراعلیٰ نے اعلان کیا تھا، ’سرکاربدلہ لیگی‘ چنانچہ تحریک کوفرقہ ورانہ رنگ دینے کیلئے ایک ہی طبقہ کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔میرٹھ،مظفرنگر، بجنور، سنبھل، فیروزآباداورلکھنؤ وغیرہ میں عوام پر قہرنازل کیاگیا۔ مگرکاٹھ کی ہانڈی زیادہ دیر نہیں چلاکرتی۔ جھارکھنڈ کے رائے دہندگان نے اس کا جواب دیدیا ہے جس نے تنگ نظر ہٹلر پرست حکمرانوں کوسوچنے پرمجبورکردیا ہے۔
بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ ملک بھرمیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ان پرہجوم احتجاجو ں کا کیا فائدہ ہوا؟ حکومت تواس کو واپس لینے کو تیارنہیں؟ بیشک قانون کی واپسی کا امکان نہیں۔ اگرسرکاربدل گئی تب بھی نہیں۔ لیکن دو بڑے فائدے ہوئے ہیں۔ پہلی بارمودی سرکارکے کسی اقدام کے خلاف ملک بھرمیں عوامی آواز اٹھی۔ ان کے حامی پست ہوئے۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ اس کی محرک کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی۔ کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ سب عوام نے خود کیا۔ موجودہ ماحول میں ایسا جو ش وجذبہ ابھرآنا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ بعض سیاسی پارٹیوں نے تواس کی ملک گیروسعت  اور شدت کے بعد ہی اس کو بھنانے کی تگ ودوشروع ہوئی۔ جب شورپوری بلندی پر پہنچ گیا اورعوام کا موڈ خوب صاف ہوگیا تب نتیش کماربھی بولے،دیگروزرائے اعلی نے بھی این آرسی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ورنہ اکیلی آواز ممتابنرجی کی سنائی دیتی رہی۔مگریہ بھی اچھا ہوا کہ سیاسی لیڈرشروع میں نہیں بولے۔ اگربول پڑتے تو پانسہ الٹا پڑسکتاتھا۔ ہماری چندہ بٹورنے والی قیادت خاموش رہی۔اگروہ بول پڑتی تو تحریک کوفرقہ ورانہ رنگ دیدیا جاتا۔
ہاں سب کے ساتھ مسلمان اس تحریک میں شریک ہوئے۔ایسا ہی ہونا چاہئے۔ ازلی مخالفوں نے بھی نوٹ کیا کہ تین طلاق، دفعہ 370 اور اجودھیا فیصلے کے بعد بھی خاموش رہنے والا فرقہ، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیوں اٹھ کھڑا ہوا؟ اسی لئے اس تحریک پر فرقہ پرستی کا لیبل لگانے میں کامیابی نہیں ملی۔ حالانکہ مودی جی نے جھارکھنڈ کی ریلی میں یہ کہہ کر کہ قانون کے مخالفوں کو کپڑوں سے پہچانو، اس کو فرقہ ورانہ رخ دینے کی چال چلی تھی۔ بھاجپا کے کچھ چھوٹے لیڈروں کے بھی ایسے ہی بیا ن آئے تھے جن سے ظاہرہوا کہ ان کو عوام کی موڈ کی سمجھ ہی نہیں آئی۔
بھاجپا کی دہلی ریلی:اس ملک گیر تحریک کا توڑ کرنے کیلئے بھاجپا نے گزشتہ اتوار 22دسمبر دہلی میں ایک ریلی کی۔ کرسیاں دورتک لگی تھیں مگربہت سی خالی رہیں۔ بعض شرکا نے کیمرے پربتایا کہ ان کو دو، دو سوروپیہ دے کرلایا گیا۔ جب ان سے پوچھا کہ کیا دہلی کے چناؤمیں بھاجپاکو ووٹ دوگے تونا کہہ دیا۔ دہلی والوں کا جواب تھا، مودی جی نے وعدے پورے نہیں کئے۔ لیکن اگلی کرسیوں پرپارٹی کے ورکر ضرورنعرے لگاکر نمایاں ہونے کی کوشش کرتے رہے۔
اس ریلی میں مودی جی نے اعلان کیا کہ ملک بھرمیں این آرسی (شہریت کا قومی رجسٹر)لانے پر حکومت نے غور ہی نہیں کیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ یہ افواہ اپوزیشن نے پھیلائی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ خود وزیر داخلہ اورپارٹی کے صدرامت شاہ اوردیگروزیروں نے پارلیمنٹ میں کئی بار اعلا ن کیا کہ این آرسی پورے ملک میں لاگوکیا جائے گا۔امت شاہ نے شہریت ترمیمی بل پر بحث کے دوران کہا تھا،’ترتیب سمجھ لیجئے۔ اس کے بعد این سی آرآئے گا جو پورے ملک پرلاگوہوگا۔‘ ایک جلسہ میں کہاکہ1924سے پہلے، تمام’گھس پیٹھیوں‘ کو نکال باہر کیا جائے گا۔ یہی بات مغربی بنگال میں پارٹی کارکنوں کے جلسے میں اور جھارکھنڈ کی انتخابی ریلی میں کہی۔ پارٹی کے کارگزارصدر جے پی نڈا نے بھی دہلی ریلی سے دو دن پہلے 20/دسمبرکو کہا کہ این آرسی تولایا جائے گا۔ لیکن اب پردھان منتری کے اس اعلان اور وزیر داخلہ امت شاہ کے اے این آئی کو انٹرویو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کیڑے نے اپنے پنجے سمیٹ لئے ہیں جو اس شرکو پھیلانے کیلئے ذہنوں میں کلبلارہا تھا۔ یہ اس ملک گیر تحریک کی بڑی کامیابی ہے۔ اگریہ تحریک اس قدر زور دار طریقے سے نہ اٹھتی اورساتھ ہی جھارکھنڈ میں پارٹی کا جھنڈا نہ اکھڑ گیا ہوتا تو پوری قوم آسام کی طرح اس عذاب میں مبتلا کی جاتی۔ پریشان توسبھی ہوتے مگراس کے زدقبائلی باشندوں، دلتوں، غریبوں،ناخواندہ لوگوں اورخاص طور سے اقلیتوں پر پڑتی۔ غیرمسلموں کو شہریت دیدی جاتی اورمسلمان حق رائے دہی سے محروم کردئے جاتے۔ اس الٹ پھیر کا سہرا طلباء اوراُس نظریہ کے سرہے جس کی اساس ہندستان کا آئین ہے۔یہ ظلم کے خلاف حق کی جیت ہے، جو ہندستان جیسے ملک میں ہی ممکن ہے، جس کے باشندو ں کے خمیر میں مہمان نوازی اورتواضع شامل ہے۔ 
آپ کویاد ہوگا کہ مئی میں پارلیمانی چناؤ کے بعد مودی جی نے کہا تھا کہ اس چناؤ کی خاص بات یہ رہی کہ کسی نے سیکولر زم کا نام تک نہیں لیا۔ انہوں نے ٹھیک کہا تھا۔ بیشک یہ لفظ سیاستدانوں کے زبانوں پر نہیں آیا تھا، لیکن لاکھوں دلوں اور دماغوں میں محفوظ تھا جس کا مظاہرہ اس تحریک کے دوران ہوگیا۔ یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں۔ بعض لوگ سیکولرزم کا مطلب مذہب سے بے تعلقی اوردین بیزاری سمجھتے ہیں۔ ہندستان  کے پس منظرمیں اورہمارے آئین کے مطابق سیکولر ریاست کا مطلب ہے، مذہب کی بنیاد پرکسی شخص سے کوئی بھید بھاؤ نہیں۔ سرکار کا اپنا کوئی مذہب نہیں اور ہرکسی کو پھلنے پھولنے کی آزادی۔ ہمیں برادرانِ وطن کا ممنون ہونا چاہئے کہ نہایت سخت مخالف ماحول اورہندتووا کا زور ہونے کے باجود  ریاست کے سیکولرکردار پر حملہ کرنے والے قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوربرملا اہل اسلام سے اظہاراتحاد کیا۔ ہر شب کا خاتمہ نئی سحرسے ہوتا ہے۔ ہم اپنے عمل اورکردار سے امن ومحبت اوردینی قدروں کا پیغام دیتے رہیں تو وہ سحرنمودار ہوکر رہے گی۔ بقول سروربارہ بنکوی
نہ ہو مضمحل میرے ہم سفر، تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہی ظلمتوں کے دوش پر ابھی کاروانِ سحر بھی ہے