Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 5, 2019

راجیو دھون کی برطرفی بورڈ پر سبقت لے جانے اور پبلسٹی بٹورنے کی کہانی۔!!!


از/شکیل رشید/(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن)/صداٸے وقت۔/مورخہ ٥ دسمبر ٢٠١٩۔
=============================
ایڈوکیٹ راجیودھون کو ' برطرف' کئے جانے کی کہانی ابھی اپنے انجام کو نہیں پہنچی ہے ۔

ابھی پرتیں کھلنا باقی ہیں ، انکشافات سامنے آنا ہیں اور وہ چہرے عیاں ہونے ہیں جو جمعیۃ علماء ہند کے معاملات میں اس قدر دخیل ہیں کہ صدر محترم مولانا سید ارشد مدنی کے 'فیصلے' بھی ان کی سازشوں اور عیاریوں کے آگے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایڈوکیٹ راجیودھون نے بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والے ' ری ویو پٹیشن' یعنی ' نظر ثانی درخواست' میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سے بھی فی الحال معذرت کرلی ہے ۔ مطلب یہ کہ بورڈ کی طرف سے ۶؍ دسمبر کو جو 'ریویو پٹیشن ' دائر ہونی ہے اس میں ڈاکٹر راجیو دھون شامل نہیں رہیں گے ۔۔۔ ویسے انہوں نے یہ دلاسہ ضرور دیا ہے کہ ''کیس دوبارہ چلے تو بہرحال میں ا س مقدمہ سے الگ نہیں ہوا ہوں'' لیکن وہ اس دلاسہ سےپہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ چونکہ وہ جمعیۃ علماء کے وکیل تھے اور جمعیۃ علماء نے انہیں ' سبکدوش' یا ' برطرف' کردیا ہے لہٰذا اب وہ کسی کے بھی وکیل نہیں رہے ۔ یعنی اب وہ یہ مقدمہ نہیں لڑیں گے ۔ اللہ کرے وہ اپنے فیصلے کو بدل دیں اور جمعیۃ نہ سہی بورڈ کی طرف سے مسلمانوں کی نمائندگی کریں ۔ ان کا بابری مسجد مقدمہ سے جڑا رہنا اس لئے ضروری ہے کہ وہ یہ مقدمہ آج سے نہیں ۱۹۹۳ء سے لڑرہے ہیں ، کوئی ۲۶ سال سے!
خبر تھی کہ مولانا ارشد مدنی جمعرات ۵؍ دسمبر کو ڈاکٹر راجیو دھون سے ملاقات کرسکتے ہیں ، لیکن تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ یہ ملاقات شاید نہ ہوسکے کیونکہ راجیودھون نے فی الحال ایسی کسی ملاقات سے انکار کردیا ہے ۔ انہیں اپنی ' سبکدوشی' یا 'برطرفی' سے دلی صدمہ پہنچا ہے اور وہ اپنے 'ہٹائے' جانے کے طریقۂ کار پر ' غصّے' میں بھی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ غلطی کس کی ہے ؟ خود راجیودھون کی ، جمعیۃ کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی یا مولانا سید ارشد مدنی کی ؟ جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جمعیۃ اور بورڈ کے مابین یہ طئے ہواتھا کہ دونوں طرف سے ' ری ویو پٹیشن' ایک ہی تاریخ میں داخل کئے جائیں لیکن جمعیۃ نے ۲؍ دسمبر کو ہی ' ری ویو پٹیشن' داخل کردیا ۔ اور یہ پٹیشن داخل کرنے میں اس قدر عجلت کی کہ ایڈوکیٹ راجیودھون کی 'عزت' تک کا لحاظ نہیں رکھا، وہ دانتوں میں تکلیف کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس گئے تھے ، انہیں یہ بتایا تک نہیں گیا تھا کہ ۲؍دسمبر کو 'ری ویو پٹیشن' داخل کیا جارہا ہے ،
جبکہ ' ری ویو پٹیشن' کا فائنل ڈرافٹ راجیودھون نے ہی مکمل کیا تھا اور سب نے اسے منظور بھی کرلیا تھا۔ جمعیۃ کے وکیل آن ریکارڈ ڈاکٹر اعجاز مقبول نے راجیودھون کے کلرک کو فون کرکے یہ اطلاع دی کہ ''میں مجبور تھا۔'' پھر انہیں راجیودھون نے ای میل کرکے کہا ''گویا آپ نے مجھے مقدمہ سے ہٹادیا ہے ۔'' آج بورڈ کے ایک ذمے دار ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کا ایک مکتوب سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے اس میں بہت سی باتوں کی وضاحت ہے ، کئی انکشافات ہیں۔ اہم انکشاف تو یہی ہے کہ جمعیۃ نے وعدہ خلافی کی اور 'ری ویو پٹیشن' بورڈ کے ساتھ ایک ہی دن داخل کرنے کی بات سے مکر کر ۲؍دسمبر کو ہی پٹیشن داخل کردی ! اس روز مولانا ارشد مدنی دہلی میں موجود تھے ، ان کے ' پرسنل سکریٹری' فضل الرحمٰن نے عظیم الشان پریس کانفرنس 'طے' کردی تھی۔۔۔ اعجاز مقبول پر دباؤ تھا کہ ' ری ویو پٹیشن' آج ہی داخل کرنا ہے کیونکہ مولانا ارشد مدنی آج ہی پریس سے خطاب کریں گے ، لہٰذا کوئی اس 'پٹیشن' کے داخل کرتے وقت موجود رہے یا نہ رہے فرق نہیں پڑتا ۔

یہ سچ سامنے آیا ہے کہ اعجاز مقبول پر دباؤ تھا۔۔۔ کس کا ؟ ظاہر ہے جمعیۃ کے ذمے داران کا ۔۔۔ اور مولانا سید ارشد مدنی کی رضا کے بغیر کوئی کیسے اعجاز مقبول پر دباؤ ڈال سکتا تھا! لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ راجیودھون کی عزت سے کھلواڑ کی وجہ مسلم پرسنل لاء بورڈ پر 'ری ویو پٹیشن' داخل کرنے میں سبقت لے جانا اور پریس کے سامنے اس کی خوب تشہیر کرنا، تھا تو غلط نہیں ہوگا۔ اعجاز مقبول دباؤ میں تھے ، دباؤسے مولانا ارشد مدنی واقف تھے ، دباؤ بنانے والوں میں جمعیۃ کے وہ افراد شامل تھے جنہیں اسی کالم میں ' گندی مچھلیاں' کہا گیا ہے ۔ دیکھئے یہ ' گندی مچھلیاں' جمعیۃ کے تالاب کو مزید کتنا گندا کرتی ہیں! اب ایک سوال مزید باقی ہے ، ڈاکٹر راجیودھون نے ۱۹۹۳ء سے لے کر آج تک بابری مسجد مقدمے کی فیس نہیں لی ، کیا یہ سچ ہے ؟ اور کیا یہ بھی سچ ہے کہ ان کے نام پر فیس لی جاتی تھی؟ اگر یہ دونوں باتیں سچ ہیں تو سوال یہ ہے کہ فیس اگر دھون نہیں لیتے تھے تو ان کے نام پر فیس کون لیتا تھا؟