Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 13, 2019

جامعہ کے طلبہ و اساتذہ سے سبق لینا چاہٸے۔

از/محمد علم اللہ/صداٸے وقت۔/١٣ دسمبر ٢٠١٩۔
==========================
دھند اور سردی میں لپٹی آج کی سہ پہر
مجھ سمیت بہت سے اہل جامعہ کے ذہنوں میں لمبے عرصے تک محفوظ رہے گی۔ شہریت ترمیم بل (جو اب قانون بن جائے گا)  کے خلاف جامعہ کے ہزاروں طلبہ کا احتجاج اور ان پر دہلی پولیس کے ہاتھوں ان طلبہ کی بے رحمی سے پٹائی کی تصویریں دل میں گھر کر گئی ہیں۔ سارے حق چھنتے چھنتے اب احتجاج پر بھی پہرے بٹھانے کی کوشش ہے لیکن دستور زباں بندی کے خلاف ڈٹ جانا جامعہ کی تاریخ رہی ہے اور آج بھی جامعہ کے طلبہ نے اسی جذبے کا اظہار کیا۔ یہ سطریں لکھے جانے تک طلبہ پر آنسو گیس کے گولوں اور پانی کے تیز دھاروں کی بوچھاریں جاری ہیں اور نزدیک کا ہولی فیملی اسپتال زخمی طلبہ سے بھرتا چلا جا رہا ہے لیکن سلام ہو طلبہ کے اس جذبے کو کہ ان سب زیادتیوں کے باوجود وہ ملک کے سیکولر ڈھانچے اور آئینی اقدار کے تحفظ کے لئے آواز اٹھاتے رہے۔
جامعہ کے طلبہ پر آنسو گیس کے گولے داغتی پولیس

سبق لینا چاہئے ان مولویوں کو جو اس قوم کے ٹھیکے دار بنتے ہیں لیکن شہریت ترمیم بل جیسے ظالمانہ قدم پر مصلحت پسندی کا کمبل لپیٹ کر اپنے اپنے ہجروں میں جا گھسے ہیں۔ اردو اخبارات کے بقول اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ہر اچھائی میں مولانا ارشد مدنی کی کوششیں کارفرما ہوتی ہیں۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اب جبکہ مسلمانوں کے خلاف ساری حدیں پھاندی جا چکی ہیں، مولانا ارشد مدنی کی تنظیم سڑکوں پر کہاں ہے؟۔ جامعہ میں طلبہ کے احتجاج میں اساتذہ شانہ بشانہ تھے اور دیوبند میں طلبہ نے احتجاج کیا تو مہتمم صاحب نے احتجاج نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے بے غیرتی کہا جائے؟، مصلحت پسندی کا نام دیا جائے یا پھر یہ فروخت شدہ ضمیر کی پہچان ہے؟۔
محمد علم اللہ