Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 14, 2019

سیاہ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ جاری رکھنا چاہٸے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا طاہر مدنی۔

از/محمد طاہر مدنی، قومی جنرل سیکرٹری، راشٹریہ علماء کونسل... 15 دسمبر 2019/صداٸے وقت۔
==========================
شہری تر میمی بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانو ں سے پاس ہوکر صدر جمہوریہ کے پاس پہونچا، ان کے دستخط کے بعد وہ باقاعدہ  قانون بن گیا، اب وہ  سی اے بی نہیں بلکہ سی اے اے ہوگیا ہے یعنی سٹزن شپ امینڈمینٹ ایکٹ. اس کی مخالفت میں احتجاج جاری ہے اور سپریم کورٹ میں اس کے خلاف رٹ بھی داخل ہوچکی ہے.
اس قانون کی مخالفت اس لیے ہورہی ہے کیونکہ یہ دستور میں برابری اور مساوات کی دی ہوئی ضمانت کے خلاف ہے. یہ سیاہ قانون مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے اور اسے جب NRC کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے گا تو پورے ملک میں افراتفری پیدا کرنے والا قانون ہے، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کے لوگ اس سے شدید طور پر متاثر ہوں گے. آبادی کی بہت بڑی تعداد کے پاس درست کاغذات نہیں ہیں، بے شمار غلطیاں ہیں جس کے ذمہ دار نااہل سرکاری افسران ہیں جو نہ تو دستاویزات ٹھیک سے بناتے ہیں اور نہ ہی ووٹر لسٹ درست کرتے ہیں. ان کی غلطیاں عوام کیوں جھیلیں؟

دستاویزات کو درست کرانے کی کوشش کرنا اپنی جگہ درست ہے کیونکہ وہ ہر فرد کی ضرورت ہے لیکن ان ناقص دستاویزات کی بنیاد پر شہریت پر سوالیہ نشان کھڑا کرنا ناقابل قبول ہے.
شہریت میں ترمیم سے متعلق سیاہ قانون واپس لینے کیلئے پریشر بنانا اور مسلسل بنائے رکھنا بہت ضروری ہے. احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا البتہ کوشش یہی رہے کہ سب کو ساتھ رکھا جائے، ہندو مسلم سب مل کر آواز اٹھاتے رہیں. یہ مسئلہ دستور کی حفاظت کا ہے، انسانی اقدار کا ہے، مساوات اور برابری کا ہے، اسے ہرگز ہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دیا جائے.
کل جماعتی مظاہرے ہوں، منصوبہ بندی کے ساتھ ہوں، نعرے مناسب لگائے جائیں، زخمیوں کے علاج اور مقدمات کی پیروی کا نظم ہو. یہ لڑائی ایک لمبی لڑائی ہے. رائے عامہ کو ہموار کرنا ضروری ہے. اس قانون کے برے اثرات کو اجاگر کرنے والے فولڈرس کی بھی ضرورت ہے، عوام میں جاکر ذہن سازی بھی لازمی ہے، شاعروں اور اہل قلم کا تعاون بھی درکار ہے. چوطرفہ لڑائی ہونی چاہیے.
بائیکاٹ کی جو تجویز آرہی ہے وہ بھی قابل غور ہے لیکن وہ مؤثر اسی وقت ہوگی جب اس پر عام رائے بن جائے. سب لوگ مل کر اگر NRC کے بائیکاٹ کا فیصلہ کریں تو سرکار کے لیے بڑی مشکل کھڑی ہوجائے گی. عدم تعاون کا ہتھیار تحریک آزادی میں بہت مؤثر رہا ہے. اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ سرکار بہت ہٹ دھرم ہے. طلاق ثلاثہ، دفعہ 370، وغیرہ کے بارے میں ہٹ دھرمی کا مشاہدہ سب کر چکے ہیں. اس لیے محض چند روز کے ایکشن سے کام نہیں چلے گا، جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں ان کو بھی سمجھانا ہوگا کہ؛
آج ہم، کل تمہاری باری ہے
حکمرانوں کی یہ تیاری ہے
تاریخ شاہد ہے کہ عوامی آندولن کے سامنے فرعونیت کو سر جھکانا پڑتا ہے اور عوام جب بیدار ہو کرسڑکوں پر آجاتے ہیں تو ان کے مطالبات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہ جاتا.
نہ تو ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی حوصلہ ہارنے کی، جوش کے ساتھ ہوش بھی ضروری ہے اور حرکت کے ساتھ منصوبہ بندی بھی، تشدد نہیں تحمل درکار ہے اور تفرق نہیں اتحاد مطلوب ہے. دوسروں پر تنقید کے بجائے، ان کو ساتھ لانے کی کوشش کرنا چاہیے.
اس بات سے بھی چوکنا رہنا ہوگا کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگ اپنی سیاسی اور جماعتی روٹی سینکنے کی کوشش کریں گے، ان سے ہوشیار رہنا ہوگا.
آج کی جو صورتحال ہے وہ ایک عوامی تحریک کی ہے، جو قائدین اس حقیقت کو نہیں سمجھیں گے وہ اپنے پیر میں کلہاڑی ماریں گے. جو لوگ بزدلی کا درس دینے کی کوشش کریں گے وہ منہ کی کھائیں گے، اب ایسے رہبروں کی بات پر قوم توجہ نہیں دے گی، جن کے بارے میں حفیظ میرٹھی نے کہا تھا؛
وہ دیکھو آگئے رہبر ہمارے
ہمیں آداب مظلومی سکھانے
ایسے مواقع کیلئے مرحوم نے یہ مشورہ بھی دیا ہے؛
لے کے نام خدا، جان پر کھیل جا
بزدلوں میں نہ جا، مشوروں کے لیے
اللہ سے دعا ہے کہ انسانیت کے لیے انسانی حقوق کی بازیابی کیلئے جاری اس آندولن کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرے اور نوجوانوں کی حفاظت فرمائے. آمین

محمد طاہر مدنی، قومی جنرل سیکرٹری، راشٹریہ علماء کونسل... 15 دسمبر 2019