Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, December 11, 2019

شہریت ترمیمی بل اور اس کے مضمرات۔۔۔۔۔۔از اسلامک یوتھ فیڈریشن یو پی۔

لکھنٶ ۔۔اتر پردیش۔/صداٸے وقت۔/
======================
تقسیم ہند کے موقع پر دستور ساز کمیٹی نے  بھارت کے دستور کو مذہب سے آزاد رکھا، اگر چہ اس کے فوراً بعد صدارتی حکم نامے کے ذریعہ دفعہ 341 کے تحت مذہب کی بنیاد پرناانصافی کی بنیاد بھی رکھ دی گئی،جس کے بعد اگر کوئی فرد مسلمان یا عیسائی ہوتا ہے تو اس کو ریزرویشن وغیرہ کی سہولت نہیں ملے گی۔

اقلیتوں کے تئیں حکومت کا عملی رویہ ہمیشہ ناانصافیوں کی مثال ہی قائم کرتا رہا ہے،     اقلیت خصوصا مسلمان کو ہمیشہ ہی سیکولرزم کے نام پر مظالم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں بھی بھارت میں ایک مؤثر برہمنیت کا علمبردار گروپ موجود رہا ہے جس کی منظم کوشش یہ رہی ہے کہ بھارت میں ہندو راشٹر قائم ہو اور ذات پات کا منووادی نظام قائم ہو، جس میں اقلیتوں،خصوصا مسلمانوں کو دلتوں اور شودروں سے بھی بدتر بنا دیا جائے۔ کانگریس نے اپنے دور حکومت میں معاشی اور تعلیمی سطح پر مسلمانوں کو پس ماندہ بنانے کی جہاں بھرپور کوشش کی وہیں ہندتوا کو پھلنے پھولنے کے مواقع بھی فراہم کیے جس کے نتیجے میں آج پورا ملک زعفرانی سیاست سے کراہ رہا ہے۔
ہندتوا کا سیاسی چہرہ بی جے پی کے مقاصد میں بھارت کو ہندو راشٹر بنانا شامل ہے جس کے تحت اس وقت اس نے جارحانہ رخ اختیار کرلیا ہے، جس کی تازہ مثال شہریت ترمیمی بل ہے۔اس بل کے ذریعے مسلمانوں کو چھوڑ کر پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو،جین،بودھ،پارسی،سکھ اور عیسائیوں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔یہ بل صراحتاً دستور ہند کے خلاف ہے۔
یہ بل اس وقت اور خطرناک شکل اختیار کرلے گا جب اس کو نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن (این آر سی) سے جوڑ دیا جائے گا،کیونکہ این آر سی میں نہ آنے والے مسلمانوں کو قید خانوں میں ڈال دیا جائے گا اور انکے سارے حقوق سلب کرلیے جائیں گے۔۔
شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کی وجہ سے ملک کو کیا نقصان ہوگا اس کو مندرجہ ذیل نکات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
1۔ملک کی ایک سو تیس کروڑ عوام بیک وقت غیر اطمینانی کی کیفیت سے دوچار ہوگی۔جس سے سماجی اور معاشی زندگی کو شدید نقصان لاحق ہوجائے گا۔
2۔بھارت کے صوبہ آسام میں 35 سال سے این آر سی کا کام چل رہا ہے اور ابھی تک فائنل نہیں ہوسکا ہے، اس وقت 19 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو غیر ملکی قرار دے کر 6 کیمپوں میں رکھا گیا ہے جہاں لوگ جانوروں سے بدتر حالت میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
3۔عوام کے پیسوں کااستعمال ان جگہوں پر ہوگا جہاں  سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا ہے، بلکہ ملک کی حالت معاشی طور پر مزید خراب ہوگی۔صرف آسام میں اب تک 16 سو کروڑ سے زیادہ روپیے خرچ ہوچکے ہیں جہاں کل آبادی 3 کروڑ ہے۔ذرا سوچیں کہ پورے بھارت میں این آر سی لاگو ہونے پر کتنا بڑا فنڈ درکار ہوگا۔جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا۔
4۔کرپشن کا بازار گرم ہوگا۔رپورٹ کے مطابق آسام میں کاغذات بنوانے اور درست کرانے میں لوگوں کو ایک لاکھ تک رشوت دینی پڑی،اندازہ کریں،ملک کا کتنا بڑا گھوٹالہ ہوگا اور 40 فیصد غربت کے نیچے زندگی گزارنے والوں کا کیا حشر ہوگا۔
5۔اگر شہری ترمیمی بل کے بعد این آر سی نافذ ہوتی ہے اور کروڑوں لوگ شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں،جس کا پورا امکان ہے، اور پھر مسلمانوں کو چھوڑ کر دیگر لوگوں کو شہریت دے بھی دی جاتی ہے تو کیا انکی حیثیت پہلے جیسی ہوگی؟یقینا وہ بھی دو نمبر کے ہی شہری مانے جائیں گے،اس لیے یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کی پوری عوام کا مسئلہ ہے۔
6۔اس بل کے ذریعے واضح طور پر ایک کمیونٹی کو مذہب کی بنیاد پر انصاف سے محروم کیا جارہا ہے لہذا اس کمیونٹی (مسلمانوں) کے لیے لازم ہے کہ وہ اس ظالمانہ بل کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہوں اور اس بل کو رد کریں اور اس کی کاپیوں کو جلائیں۔۔
7۔ اس بل اور این آر سی کے ذریعے ہندتوا لابی شدھی کرن(گھر واپسی) کی راہ ہموار کرے گی کیونکہ مسلمانوں کو شہریت ملے گی نہیں البتہ اگر وہ ہندومذہب قبول کرلیں اور اور انکے ذات پات کے نظام کا حصہ بننے کے لیے راضی ہو جائیں گے تو شہریت مل جائے گی۔

یہ بل ہر اعتبار سے دستور کے خلاف اور ناانصافی و ظلم پر مبنی ہے جس سے ملک تباہ و برباد ہو جائے گا، اس لیے اس بل کو ہم رد کرتے ہیں۔۔۔۔۔

ISLAMIC YOUTH FEDERATION
              (U.P.)