Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 2, 2019

بابری مسجد معاملہ: ریویوپٹیشن داخل کرنا ہمارا قانونی حق، آخری دم تک مسجد کےلئےکریں گے جدوجہد: مولانا ارشد مدنی۔

جمعیۃ علماء ہند کی ریویوپٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے۔ ریویوپٹیشن آئین کی دفعہ 137 کے تحت دی گئی مراعت کی روشنی میں داخل کی گئی ہے۔


نئی دہلی:صداٸے وقت /ذراٸع/٢دسمبر ٢٠١٩۔
==============================
 جمعیۃعلماء ہند نے بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں گزشتہ 9/نومبر کوآئے فیصلہ کے خلاف آج سپریم کورٹ میں ریویوپٹیشن (ڈائری نمبر43241-2019) داخل کردی، ریویوپٹیشن آئین (نظرثانی کی عرضی) کی دفعہ 137کے تحت دی گئی مراعت کی روشنی میں داخل کی گئی ہے۔ بابری مسجد کا مقدمہ ہندوستان کی تاریخ کا طویل ترین مقدمہ ہے، جس  کے فیصلہ میں  تقریباً 70 سال کا وقت لگا ہے۔  سپریم کورٹ تک پہنچااورطویل بحث کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ صادرکردیا تھا اورمتنازع اراضی رام للا کو دینےاور مسلمانوں کو پانچ ایکڑزمین متبادل کےطورپردینےکا حکم دیا تھا۔  اس فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے وکلاء خصوصاً سپریم کورٹ کے سینئروکیل ڈاکٹرراجیو دھون، ایڈوکیٹ اعجازمقبول ودیگرسے صلاح و مشورہ کرنے اورورکنگ کمیٹی کے فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول نے صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر ریویوپٹیشن داخل کردی۔

 اس دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نےکہا کہ ریویوپٹیشن داخل کرنا سپریم کورٹ کی طرف سے دیا گیا، ہمارا قانونی حق ہےاوروہیں یہ شرعی اورانسانی حق بھی ہےکہ آخری دم تک مسجد کی حصولیابی کےلئے جدو جہد کی جائے۔ کیوں کہ مسجد وقف علیٰ اللہ ہوتی ہےاور واقف کو بھی یہ اختیارنہیں رہ جاتا کہ اس کو واپس لے لے۔ اس لئےکسی فرد یا جماعت کویہ حق نہیں ہےکہ کسی متبادل پرمسجد سے دستبرادارہوجائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی نظرثانی کی اپیل داخل کرنےکا مقصد ملک کی یکجہتی اورامن وامان میں خلل ڈالنا ہرگزنہیں ہے، بلکہ قانون میں دی گئی مراعات کا حق استعمال کرتے ہوئے پانچ رکنی آئینی بنچ کےفیصلےکےخلاف اپیل داخل کی گئی ہے۔
سنی سینٹرل وقف بورڈ کے فیصلے سے کوئی فرق نہیں
جمعیۃعلماء ہند کے صدرنےمیڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئےکہا کہ پانچ رکنی آئینی بینچ کی جانب سے فیصلہ آنےکے بعد جمعیۃ علماء نے عدالت عظمی سے رجوع کیا ہے، نیزیوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کی جانب سے ریویو پٹیشن داخل نہیں کرنے کا ہماری جانب سے داخل کردہ ریویو پٹیشن پرکوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ1961 میں جب سنی وقف بورڈنے پٹیشن داخل کیا تھا اس وقت عدالت سےکہا گیا تھا کہ اسے ری- پریزینٹیٹیو سوٹ کا دعوی سمجھا جائے، جوتمام مسلمانوں کی جانب سے داخل کیا جارہا ہے، جسےعدالت نےمنظوربھی کرلیا تھا۔ لہٰذ ا اب کوئی بھی مسلم ریویو پٹیشن داخل کرسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پرکہی یہ بات
مولانا ارشد مدنی نےکہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق وشواہد پر مبنی ہےکہ بابری مسجد کسی مندرکو منہدم کرکے یا کسی مندرکی جگہ پر تعمیرنہیں کی گئی ہے، جیسا کہ خود سپریم کورٹ نےاپنے فیصلے میں تسلیم کیا ہے۔ اسی بنیاد پرجمعیۃ علماء ہند کا روزاول سے بابری مسجد حق ملکیت مقدمے میں یہ موقف رہا ہےکہ ثبوت و شواہد اور قانون کی بنیاد پرسپریم کورٹ جوبھی فیصلہ دے گا، اسے ہم تسلیم کریں گے۔ خود سپریم کورٹ نےمتعدد بارکہا تھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ صرف ملکیت کا ہےنہ کہ’آستھا‘ کا۔ اسی لئےجمعیۃ علماء ہندنےملک کے ممتاز وکلاء کی خدمات حاصل کیں، ثبوت وشواہد اکٹھا کئے اورپوری مضبوطی سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی ملکیت کادعویٰ پیش کیا اور ہم اسی بنیاد پرپُرامید تھےکہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا۔