Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 6, 2019

خدا کے لٸیے یہ مت کیجٸیے !!! حیدر آباد انکاونٹر کے تعلق سے ایم ودود ساجد کی تحریر۔۔


از/ایم ودود ساجد/صداٸے وقت
===========================
حیدر آباد میں عصمت دری اور متاثرہ کو جلاکر ماڈالنے کے چاروں ملزمین کو تلنگانہ پولیس نے 'انکاؤنٹر' میں ہلاک کرڈالا۔۔۔

لوگ اس پر بہت خوش ہیں ۔۔۔
کچھ آتش بازی کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
کچھ رقص کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ پولس والوں کا منہ میٹھا کرا رہے ہیں ۔۔۔
کچھ ان سے ہاتھ ملاکر سیلفیاں لے رہے ہیں ۔۔۔۔

معلوم ہے کہ اس ذہنیت کا کیا نام ہے؟
اس ذہنیت کا نام لنچنگ ہے لنچنگ۔۔۔ سراسر لنچنگ۔۔۔ Mob lynching.  جی ہاں ۔۔۔

 اور سنئے۔۔۔ لنچنگ کرنے والوں کو سزا تو اب تک نہیں ملی لیکن وہ کم سے کم پکڑے تو جاتے ہیں ۔۔۔ ؟ یہاں آپ 'لنچنگ' کرنے والے پولیس عملہ کو پکڑ بھی نہیں سکتے۔۔۔ قانون نے انہیں تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔۔۔

ایک ہم ہیں ۔۔۔
ہم میں سے کچھ اس ذہنیت کا ساتھ دے رہے ہیں ۔۔۔ افسوس ہوا کہ کئی مسلمانوں نے اس انکاؤنٹر کی تائید کی۔۔ پولس کو سلام بھیجا۔۔۔۔

دو تین دن پہلے ہی امیتابھ بچن کی اہلیہ جیا بچن نے راجیہ سبھا میں عصمت ریزی کے ملزموں کی لنچنگ کا مطالبہ کیا تھا۔۔۔ سو تلنگانہ پولس نے وہ مطالبہ پورا کردیا۔۔۔

جو مسلمان اس غیر قانونی عمل کی حمایت کر رہے ہیں وہ پھر اخلاق' جنید' پہلو اور تبریز کی لنچنگ کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں ۔۔۔؟ وہاں بھی تو ہجوم ان کے 'جرم' کی گواہی دے کر انہیں ماردیتا ہے۔۔۔ یہاں بھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ چاروں عصمت دری اور آگ میں جلاڈالنے کے مجرم تھے۔۔۔

سوال یہ ہے کہ یہ طے کرنا پبلک اور پولیس کا کام ہے یا عدالت کا کہ جو ملزم ہیں وہی مجرم بھی ہیں؟

اس وقت تمام بڑے صحافی' ماہرین قانون' دانشور' سماجی رضاکار اور سابق جج اس انکاؤنٹر پر سوال اٹھا رہے ہیں ۔۔۔ کچھ نے تو اسے planned murder منظم قتل قرار دیا ہے۔۔۔۔ سوال بجا طورپر کھڑے کئے جارہے ہیں ۔۔۔
1- رات کے تین بجے جائے واقعہ پر تفتیش کے لئے ان چاروں کو لے کر جانے کا پولیس کے پاس کیا جواز تھا۔۔۔؟
2- چار خطرناک ملزموں کی حفاظت کے لئے محض تین سپاہی۔۔۔؟
3- ان چاروں کے ہاتھ پاؤں آزاد کیوں تھے۔۔۔؟
4- اور یہ کہ اگر واقعی یہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے تو ان کے گھٹنوں سے نیچے گولی کیوں نہیں چلائی گئی ۔۔۔؟

یہ چاروں عدالتی تحویل میں تھے۔۔۔ یعنی ان چاروں کے تحفظ کی ذمہ داری عدالت نے پولیس کو دی تھی۔۔ ان کا معاملہ عدالت میں تھا۔۔۔ ثبوت وشواہد عدالت میں پیش کئے جانے تھے۔۔۔ ممکن تھا کہ کچھ اور مجرموں کا سراغ ملتا۔۔۔ یا کچھ اور ایسے جرائم کا پتہ چلتا جو انہوں نے کئے اور منظر عام پر نہ آسکے۔۔۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس جرم میں ملوث کسی 'بڑے' کے چہرے سے پردہ اٹھتا۔۔۔

راجدیپ سردیسائی' شیکھر گپتا' برکھا دت سمیت خود مسلمانوں کے بہت سے قائدین' قلم کار اور رضاکار اس طرز عمل کو انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔۔۔ ابتدا میں شور مچایا گیا کہ تمام ملزم مسلمان ہیں ۔۔۔ لہذا بعض مسلمانوں نے انہیں چوراہے پر پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ شروع کردیا۔۔۔ مولانا یاسر ندیم الواجدی نے اس طرز عمل کو معذرت خواہانہ قرار دیا۔۔۔ جیا بچن نے بھی اسی عنصر کے تحت ان کی لنچنگ کی تائید کی تھی۔۔۔۔ مولانا عبدالحمید نعمانی نے بھی اس رویہ کی نکیر کی ہے۔۔۔۔

مسلمان اپنا طرز عمل بدلیں ۔۔۔۔ ایک بھیانک جرم کا رد غیر قانونی ردعمل سے نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔