Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 7, 2019

ملک میں بے چینی کا ماحول۔۔تحریر۔۔۔نظام الدین خان۔

از/نظام الدین خان/صداٸے وقت۔
=====================
انصاف میں ہورہی دیری اور عدالتی کارواٸیوں کے وقت کا تعین نہ ہونے کیوجہ سے ملک میں بے چینی کا ماحول بنا ہوا ہے۔عدالتوں کے تٸیں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ دانشوران میں بھی مایوسی ہے یہیوجہ ہے کہ حیدر آباد انکا ونٹر کو لیکر ایک طبقہ خوشیاں منا رہا ہے۔اگر ایک عام شہری کے نقطہُ نگاہ سے دیکھا جاٸے تو یہ انکاونٹر صحیح لگتا ہے اور پولیس کی کارواٸی جاٸز لگتی ہے مگر قانونی زاویہُ سے یہ کاررواٸی کہیں سے بھی جاٸز نہیں کہی جاسکتی۔۔۔جو طبقہ اس انکاونٹر کو جاٸز قرار دیتا ہے اس کے پاس عدالتی کاررواٸیوں کی سستی کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔سات سال گزر جانے کے بعد بھی ”نربھیا“ کے قاتلوں کو ابھی تک پھانسی نہیں دی گٸی۔۔بیسوں سال پرانے نٹھاری کیس کے مجرم کی آج تک پھانسی نہیں ہوٸی جب کہ اس نے پچاس سے زیادہ نابالغ بچوں کے ساتھ زنا کیا اور انھیں قتل کردیا۔ابھی اناٶ میں چمیانند اسپتال میں آرام فرما رہے  ہیں۔ اناٶ میں ہی ایک دوسری لڑکی کے زانیوں کو ڈھاٸی ماہ میں ہی ضمانت مل گٸی اور عدالت جاتے وقت اس کے اوپر کیروسین چھڑک کر جلادیا گیا اور آج اسپتال میں ہی اس کی موت کی خبر آگٸی۔
لوگوں کے من میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ آخر عدالتیں زانیوں کو کیوں ضمانت پر چھوڑ دیتی ہیں۔کیا اس لٸیے کہ وہ متاثرہ کو زندہ جلا سکیں؟ یہ عدالتیں ہیں جہاں کشمیر کی سبھی رٹ کو خارج کردیا جاتا ہے۔ای وی ایم پر حزب مخالف کی سبھی عرضیوں کو خارج کر دیا جاتا ہے۔۔دوسری طرف گو رکچھکوں کو کوٸی سزا نہیں دی جاتی ساتھ ہی ایسے فیصلے بھی سناتی ہے کہ پہلو خان دل کے دورے سے مرا تھا۔
 بابری مسجد کا وجود تھا۔اس میں نماز بھی پڑھی جاتی تھی ۔1949 میں غیر قانونی طور پر مورتیں رکھ دی گٸیں تھیں۔1992 میں جبراً توڑ بھی دی گٸی لیکن وہاں مندر ہی بنے گا۔۔ایسے میں اگر ہندوستانی عدالتوں پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو یہ بہت ہی ہمت و عزم کا کام ہے ۔
عوام روز زنا بالجبر و قتل  کی وارداتیں سن سن کر تھک چکے ہیں اسی لٸیے تیلنگانہ کارواٸی سے تھوڑا سکون محسوس کر رہے ہیں۔
 اسے جاٸز ٹھرا رہے ہیں جو مناسب نہیں ہے۔جو کچھ ہوا وہ لنچنگ سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔اگر پولیس کی گولی ہی انصاف ہے تو قانون و عدالت کی کیا حیثیت رہ جاٸے گی۔۔عدالتی کارواٸی میں سدھار کی بات ہونی چاہٸے۔عدالتوں کی سست رفتاری سے پیدا شدہ حالات و مایوسی اور کمی کے چلتے غلط کو صحیح نہیں ٹھرایا جا سکتا ۔۔

پولیس کا کام اصلی مجرم کو پکڑ کر سامنے لانا ہے اسے سزا دینا نہیں۔ایسے تو ہر کوٸی اصلی مجرم کی نشاندہی کرکے سزا دینے لگے گا۔اور ملک میں بدامنی پھیل جاٸے گی۔ایسےحالات میں ملک میں مجرموں اور جرم کی پہچان ذات و مذہب دیکھکر ہوتی ہو تو یہ اوربھی خطرناک بات ہے۔اس کے تعلق سے میرا صاف صاف ماننا ہے کہ زنا کے مجرموں کے انکاونٹر کو جاٸز ٹھرانے والے ملک میں قانون کا راج ختم کر جنگل راج قاٸم کرنا چاہتے ہیں۔ملک  جذبات سے نہیں قانون سے چلتا ہے ۔حیدر آباد میں جنکو قتل کیا گیا قانون کی نظر میں وہ ملزم تھے۔الزام کو جرم قرار دٸیےجانے تک صبر سے کام لینا پڑتا ہے ۔۔زانیوں سے کوٸی ہمدردی نہیں ہوسکتی مگر پولیس کو قتل کرنے کی چھوٹ دینا  بھی کسی طرح سے جاٸز نہں ہوسکتا۔ہم پولیس کی سچاٸی بھی جانتے ہیں اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔۔کبھی کبھی اصلی گنہگاروں کو بچانے ۔عوامی جذبات کو کچلنے یا پھر عوام کی توجہ کو بھٹکانے کے لٸیے انکاونٹرس کا بھی سہارا لیا جاتا ہے ۔
نظام الدین خان۔ریاستی  کو آرڈینیٹر ایس ڈی پی آٸ
۔۔ دہلی