Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, December 7, 2019

مکہ سے سفر، ماوراء نہر – تیسری قسط۔..سفر ازبکستان۔

از/محمد نعمان مکی۔صداٸے وقت۔
======================
ایک جاپانی کا قبول اسلام:

نماز عشاء کے بعد بنگلور کے حذیفہ بھائی وغیرہ ساتھیوں نے ایک جاپانی نوجوان کو حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ کے کمرے میں لے آئے اور ملاقات کرائی۔ حضرت دامت برکاتہم نے اس کو اسلام کی دعوت دی۔ تھوڑی دیر آخرت اور جنت و جہنم سے متعلق گفتگو فرمائی اور بتلایا کہ جہنم سے بچنے کے لیے توحید ورسالت کی گواہی دینا ضروری ہے۔

الحمدللہ حضرت کی دعوت دین اور توجہ کی برکت سے اللہ نے اس جاپانی نوجوان کے دل میں حق کو واضح اور راسخ کردیا، الحمدللہ تھوڑی ہی دیر میں وہ نوجوان بخوشی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ پھر اللہ کی توفیق سے اس نے سب کے ساتھ مراقبہ میں شرکت کی۔ حضرت مولانا طلحہ صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ تجربہ یہ ہے کہ کلمہ پڑھا دینے سے دل میں ایک نور آجاتا ہے۔ پھر اس چنگاری کو جب بھی موقع ملا یہ ایمان کا شعلہ بن جاتی ہے۔
(استفادہ: مفسر قرآن حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ کی تحریر “اجالوں کا سفر”).
ارواح سے اکتسابِ فیض:
اسی درمیان میں بندہ نے حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ سے پوچھا کے حضرت ہم لوگ اس سفر میں کیا نیت کریں۔ حضرت نے فرمایا کہ ہم لوگ حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی حفظہ اللہ سے تربیت و اصلاح, اور علم‌ حاصل کی خاطر آںٔے ہیں۔ اور اپنے اکابرین کی ارواح سے اکتساب فیض کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ (یہ علاقہ بڑے بڑے اکابر علماء اور اہل علم و فضل حضرات کا ہے،‌ جیسے صحابی رسول حضرت قثم بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نقشبندیہ سلسلہ کے بانی حضرت مولانا بہاؤالدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ، امیرالمومنین فی الحدیث ‌حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اکابرین یہاں مدفون ہیں۔) حضرت نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ علماء اہل سنت والجماعت صالحین کی ارواح سے اکتسابِ فیض کے قاںٔل ہیں۔ سلفی حضرات اس کا انکار کرتے ہیں۔ اور بریلوی حضرات اس میں غلو کرتے ہیں، تو یہ دونوں افراط و تفریط کا شکار ہیں‌۔ ہمارے اسلاف کے اندر اعتدال ہے، وہ افراط و تفریط سے بچتے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے۔
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا.
لہذا اہل سنت والجماعت اعتدالیت پر قائم ہوگی۔
ایک وضاحت:
چونکہ یہ بات آگںٔی ہے تو اس کے متعلق وضاحت بھی ضروری ہے کہ ارواح سے اکتسابِ فیض کا کیا مطلب ہے، تاکہ کسی بھائی کو اس کے متعلق مغالطہ نہ ہوجائے۔
حضرت مولانا ساجد خان نقشبندی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ،
“اہلسنت و الجماعت احناف دیوبند کا عقیدہ وہ نہیں جو اہل بدعت {بریلوی حضرات} کا ہے یا عوام الناس میں اس کی غلط تفسیر مشہور ہے کہ قبر والوں سے مدد طلب کرنا ان کو حاجت روا مشکل کشاء سمجھ کر ان سے مسائل حل کروانا { جیسا کہ اہل بدعت کا نظریہ ہے } یہ علماء دیوبند کا عقیدہ قطعاً نہیں ہے، بلکہ علماء دیوبند کے عقیدے میں بس یہ بات ہے کہ اولیاء کرام کا وسیلہ اور واسطہ دے کر اللہ تعالی سے مانگا جائے اور مشکل کشاء اور حاجت روا اللہ تعالی کی ذات کو ہی سمجھا جائے نہ کہ اللہ کے علاوہ کسی غیر کو ۔
باقی جہاں تک اولیاء و بزرگوں کی قبور سے روحانی فیض کی بات ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ بعض کم فہم لوگوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ قبور سے فیض کا مطلب یہ ہے کہ یہ قبر پرست ہیں اور اہل قبور سے مدد مانگتے ہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ اولیاء کی قبور سے فیض حاصل کرنے کا عام فہم مطلب یہ ہے کہ احادیث کی رو سے انبیاء و اولیا ء کی قبور جنت کا باغ ہیں اور جنت اللہ تعالی کے انعامات و تجلیات کا مقام ہے تو صالحین کی قبور پر اللہ تعالی کی رحمتوں کا خاص نزول ہوتا ہے لہذا زیارت کرنے والا وہ شخص بھی ان رحمتوں سے محروم نہیں رہتا اگرچہ اس کو محسوس ہو یا نہ ہو جس طرح عطار خوشبو والے کی دوکان کے محض پاس سے گزرنے سے بھی آدمی خوشبو کو محسوس کرتا ہے بس یہ ہے اصل حقیقت فیض کی ۔
باقی قبور کا طواف سجدے کرنا ، چراغاں کرنا ، اذان دینا، وہاں پر عرس میلے قوالی کرنا ، قبر کو بوس و کنار کرنا ، قبر والوں کو تصرف والا سمجھنا ، و غیرہ یہ سب بدعات و خرافات ہیں اور علماء دیوبند قطعاً ان چیزوں کے قائل نہیں ہیں۔”
تاشقند کی ایک حسین و جمیل مسجد:
ہم لوگ بروز بدھ 30 اکتوبر بعد نماز ظہر دوپہر ایک بجے کے قریب اپنی رہاںٔش سے بزریعہ بس تاشقند کے ریلوے اسٹیشن کی طرف نکلے، کیونکہ ہمارا اگلا سفر بخارا کے لیے بذریعہ ٹرین تھا۔ راستے میں تاشقند کی ایک بڑی وسیع اور نہایت ہی خوبصورت مسجد اسلام اوٹا (یعنی اسلام آباد) جامع مسجد دیکھنے کے لیے اترے۔ حضرت مولانا طلحہ صاحب حفظہ اللہ قافلے کے آگے آگے مسجد کے احاطہ میں داخل ہوںٔے تو مسجد کے امام صاحب نے استقبال کیا۔ امام صاحب سے اس عاجز کی ایک دن پہلے ہی ملاقات ہوچکی تھی۔ جب ہم داخل ہوںٔے تو ظہر کی اذان‌ ہورہی تھی اور مسجد کی اکثر صفیں پر ہوچکی تھی، امام صاحب نے حضرت مولانا طلحہ صاحب حفظہ اللہ کو اور دیگر ساتھیوں کو اندر محراب کی جانب لے کر گںٔے۔ وہاں اگلی صفوں میں پہلے سے بیٹھے ہوںٔے مقامی احباب نے احتراماً اگلی صفوں سے اٹھ اٹھ کر ہمارے بیٹھنے کے لیے جگہ بنانے لگے۔ حضرت والا اور کچھ ساتھی اگلی صف میں بیٹھ گںٔے۔ بندے کو وہاں کے امام صاحب کے ساتھ ہی بیٹھنے کا موقع مل گیا‌‌۔ وہ امام صاحب مصر کے پڑھے ہوںٔے تھے، بندہ نے بیٹھے بیٹھے امام صاحب سے عربی میں حضرت مولانا طلحہ صاحب حفظہ اللہ کا علمی اور شخصی تعارف کرایا۔ تعارف سن کر امام صاحب متاثر ہوںٔے اور دوبارہ سے نام پوچھ کر یاد کرلیا۔
ہر فرض نماز کے بعد وہاں اجتماعی دعا کا عام معمول ہے، پھر قرآن کی کچھ آیات کی تلاوت کی جاتی ہے، پھر دوبارہ دعا ہوتی ہے۔ اس دعا میں امام صاحب نے اس وفد کے لیے، نقشبندیہ سلسلہ کے لیے اور خصوصاً حضرت مولانا طلحہ صاحب حفظہ اللہ کے لیے نام لے کر دعا فرمائی۔ دعا کے بعد مفسر قرآن حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ نے امام صاحب سے فرمایا کہ وہ اس شہر کے لوگوں سے کچھ خطاب کرنا چاہتے ہیں۔
اس کو سن کر امام صاحب نے فوراً ازبک زبان میں اعلان فرمادیا کہ سب احباب تشریف رکھیں، ابھی تھوڑی دیر مہمان خطاب فرماںٔیں گے۔ سارا مجمع بیٹھ گیا، اور تقریباً لوگ ادب سے دو زانو ہوکر بیٹھ گںٔے۔
حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ نے وہاں عربی میں بڑی فکر انگیز اور درد بھری تقریر فرمائی جسکا ترجمہ اس مسجد کے امام صاحب ازبک زبان میں فرمارہے تھے۔
اس تقریر کی سب سے انوکھی بات یہ تھی، (جو بعد میں آگے جا کر پتہ چلی) کہ حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ پہلے غیر ملکی ہیں جن کا اس مسجد میں بیان ہوا، ورنہ وہاں کسی غیرملکی کو مسجد میں بیان کی اجازت نہیں ملتی ہے۔
تقریر کا خلاصہ:
حضرت والا نے اللہ کی حمد و ثنا اور رسول کریم ﷺ پر درود سلام کے بعد فرمایا،

“ایک طویل آزمائش کے بعد اللہ تعالی نے آپ حضرات کو سیاسی ومذھبی طور پر آزادی کی نعمت عطافرمائی ہے۔ اس لۓ اب ضرورت ہے کہ ماضی کی طرف واپسی کا سفر شروع ہو ، آپکا ماضی بہت شاندار اور مالامال ہے۔ آپکے بزرگوں کے عالم اسلام پر عظیم احسانات ہیں۔ اسلامی کتب خانہ کی تیاری میں آپکا بڑا حصہ ہے۔ عالم اسلام احسان مند ہے اور قیامت تک احسان مند رھیگا ، امام بخاری کا ، امام مسلم کا ، امام ابو داؤد کا ، امام ترمذی کا ، امام ابن ماجہ کا ، امام نسفی کا ، فقیہ ابو اللیث سمرقندی کا، صاحب ھدایہ کا، اور ان جیسے ہزاروں جبال علم کا۔ جس طرح کسی درخت کی بلندی کا راز اسکی ان جڑوں میں پوشیدہ ہوتا ہے جو زمین کے اندر گہرائی میں پیوست ہوتی ہیں، اسی طرح ہماری عظمت اپنے ماضی کے ساتھ مظبوط رشتہ سے مربوط ہے۔”
حضرت والا کی تاشقند والی تقریر کے بارے میں اگر کوںٔی اس عاجز سے پوچھے، تو بندہ پوری تقریر کا نچوڑ علامہ اقبال رح کے ایک شعر میں پیش کر سکتا ہے۔ وہ ہے۔

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔سارے مجمع نے اس مسجد میں بڑی توجہ اور احترام سے بات کو سنا۔ بہت سارے لوگوں نے اس کو اپنے موبائل فونز پر محفوظ بھی کرلیا۔ پھر دعا ہوںٔی اور مصافحہ وغیرہ ہوا۔ بعد میں شیخ عبد الکریم صاحب ( ملیشیا ) نے بتلایا کہ اس بیان کی اطلاع پورے ملک میں پہونچ چکی ہے، اور ہر طرف اس کو سناجارہا ہے۔
اس مسجد کے‌ امام صاحب نے مسجد کے مختلف حصے دکھائے۔ وہ مسجد بہت ہی عالیشان ہے۔ اس کے کںٔی گنبد ایک ساتھ جڑے ہوںٔے ہیں, جو بہت ہی شاندار ہیں، اور حسن کاریگری کا شاہکار ہیں، جن میں روشن فانوس لٹکے ہوںٔے ہیں۔اس مسجد کے اندر ایک طرف دیوار کے اوپر غلاف کعبہ کا ایک بہت بڑا ٹکڑا بھی لگایا گیا ہے، جو ان کے امیر کو عمرہ کے سفر میں مکہ میں ہدیہ پیش کیا گیا تھا۔
وضو خانے بہت ہی خوبصورت اور پرکشش بنے ہوںٔے ہیں۔ شیشے اور پھول پودے ہر طرف لگے ہوںٔے ہیں۔ گرم پانی کی سہولت کے ساتھ، وہاں خدمت کے لیے اسکول کی بچے کھڑے ہوتے ہیں جو ہر شخص کو دو چھوٹے چھوٹے تولیے پیش کرتے ہیں’ اور کہتے ہیں کہ ایک چہرے اور ہاتھوں کو پوچھنے کے لیے ہے اور ایک پاؤں کے لیے۔ اس کو استعمال کے بعد قریب ہی رکھی ہوںٔی باسکٹ میں ڈال دیتے ہیں، جو پھر دوبارہ دھلنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔
وہاں سے امام صاحب ہمیں مسجد کے بیسمنٹ میں لے گںٔے جو نہایت ہی وسیع اور خوبصورت ہے۔ اس کی سب سے پرکشش چیز وہاں کا محراب ہے۔ جس پر سونے کے پانی سے اعلی کاریگری اور فن خطاطی کی گںٔی ہے۔ امام مسجد نے اس کو دکھاتے ہوںٔے فرمایا کہ اس محراب کے بنانے میں چھ کلو خالص سونا استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کے سب دروازے بھی منقش ہیں، جو خاص ازبکستان کی نقش و نگاری سے مزین ہیں۔
دوپہر کا کھانے لیے عربی کھانوں کا مرکز “بیت المندی” نام کے ایک ریسٹورنٹ میں لے جایا‌گیا، جہاں عرب ڈش مندی پیش کی گںٔی۔
دوسرے ملکوں سے سلسلہ کے اکابرین بھی یہیں تشریف لائے۔ جسے دمشق سے شیخ محمد رجب دیب حفظہ اللہ اور شیخ محمود تشریف لائے۔ ان کے علاوہ شیخ سلیمان بھی شریک طعام تھے جو ایک پورے وفد کیساتھ فرانس سے تشریف لائے ہوئے تھے،
شیخ سلیمان فرانسیسی الاصل ہیں دمشق کے شیخ رجب دیب کے ہاتھ پر مشرف بااسلام ہوے، پھر ایک عرصہ دمشق میں اپنے شیخ کی صحبت ومعیت میں سلوک طئے کرنے کے بعد اجازت وخلافت سے سرفراز ہوئے اور اب فرانس میں سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہیں۔ بقدر ضرورت عربی بول لیتے ہیں نہایت متواضع اور با اخلاق انسان ہیں۔
تاشقند کی جامع شیخ زین الدین مسجد:
کھانے سے فارغ ہوکر اس مسجد میں پہنچ کر عصر کی نماز ادا کی، یہ مسجد بھی بہت وسیع اور خوبصورت ہے۔ اس کے گنبدوں پر اندر سے اللہ تعالیٰ کے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف نام بڑے خوبصورت طریقے سے لکھے ہوںٔے ہیں۔ ابھی چونکہ ٹرین کے لیے وقت باقی تھا تو احباب نے اپنے اپنے شیوخ کے ساتھ بیٹھ کر اسی مسجد میں کافی دیر تک ذکر و مراقبہ کیا۔
سفر تاشقند تا بخارا:
تاشقند سے شام کی سوپر فاسٹ ٹرین سے بخارا جانا تھا۔ تو مغرب سے پہلے ہی ریلوے اسٹیشن پہنچ گںٔے۔ اسٹیشن انتہائی صاف ستھرا اور بڑا ہی خوبصورت اور پھول پودوں سے سجا ہوا تھا۔ اسٹیشن پر نماز کے لیے مستقل کمرہ اور مصلی وغیرہ بنا ہوا تھا۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہوںٔے۔
یہیں پر حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ کے خلیفہ شیخ مصطفی کمال مکی حفظہ اللہ بھی مع فیملی کے تشریف لائے۔ یہ مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں اور حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ کے خادم خاص ہیں۔ اکثر اسفار میں حضرت جی کے ساتھ ہوتےہیں۔
اور حضرت مولانا مفتی انعام الحق صاحب حفظہ اللہ بھی تشریف لے آئے۔ ان کو بھی حضرت جی سے اجازت حاصل ہے، اور یہ صاحب تصانیف عالم ہیں، عالی پور ( گجرات ) کے مدرسہ میں حدیث کے استاذ ہیں۔
ہمارے قافلہ کے منتظمین نے ٹرین میں بیٹھنے سے پہلے سارے احباب میں کھانے کے پیکیٹس تقسیم کیے۔
جب ٹرین میں داخل ہوںٔے تو دیکھا کہ وہ اندر سے واقعی کسی ہواںٔی جہاز سے کم نہیں ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ وہ ہوائی جہاز سے بھی بہتر ہے تو شاید مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ ٹرین میں تین درجے ہیں، اکانومی کلاس ، بزنس کلاس، اور فرسٹ کلاس، ہم لوگ بزنس کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اسکا بیت الخلاء بھی بہت کشادہ اور صاف ستھرا تھا۔
ایک طرف دو آرام دہ کرسیاں لگی ہوںٔیں تھیں، اور اس کے سامنے ایک چھوٹا سا ٹیبل پھر اس کے مقابل میں دو اور کرسیاں لگی تھیں۔ یعنی چار سیٹیں اور بیچ میں ایک ٹیبل۔ دوسری جانب سنگل سنگل چیر اور درمیان میں چھوٹا ٹیبل، بیچ میں چلنے پھرنے کے لیے جگہ تھی۔
ٹرین اپنے وقت پر شام 6:40 pm کو روانہ ہوںٔی، یہ ایک سوپر فاسٹ ٹرین تھی، اندر لگے ہوںٔے سکرینس پر ٹرین کی چڑھتی اترتی رفتار دکھائی دے رہی تھی۔ تاشقند سے نکلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ ٹرین 230 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ لیکن اس کا شور اندر بلکل نہیں تھا۔ وہ پوری پیک ایر کنڈیشنڈ ٹرین تھی۔ اندر ہوائی جہاز کی طرح ٹرالیوں پر چاںٔے، کافی، فروٹ سلاد وغیرہ لے کے چل رہے تھے۔ ایک دفعہ کے لیے چاںٔے یا کافی مفت تھی۔ باقی زاید چیزوں کو صوم یا ڈالرز میں خرید سکتے ہیں۔ یہ تقریباً 5گھنٹے کا سفر تھا۔
کچھ وقت کھانے پینے میں، اور آپسی گفت و شنید میں اور کچھ وقت ذکر تلاوت میں گزر رہا تھا۔ ٹرین برق رفتاری سے آگے بڑھتی چلی جارہی تھی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

Email: nomanmakki.mfa@gmail.com