Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 16, 2019

جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اندر پولیس ایکشن انتہائی تشویش ناک::::::::::::شاہی امام سید احمد بخاری۔

دہلی،16دسمبر۔2019/صداٸے وقت /ذراٸع۔
=============================
 شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے نئے شہریت قانون کے خلاف پر امن مظاہروں کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اندر پولیس ایکشن کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور خاطی پولیس والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔انھوں نے یہاں ایک بیان میں کہا کہ جامعہ کے طلبا کیمپس کے اندر پرامن مظاہرہ کر رہے تھے کہ دہلی پولیس نے جامعہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کیمپس میں گھس کر طلبا پر لاٹھی چارج کیا اور اشک آور گیس کے گولے چھوڑے۔ پولیس نے لائبریری پر بھی حملہ کیا اور وہاں پڑھ رہے طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ٹی وی چینلوں پر طالبات کے ساتھ بد تمیزی کی جو تصاویر نظر آئی ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ متعدد طلبا زخمی ہوئے۔ ایک طالب علم کو گولی لگی۔ پولیس نے طلبا پر پتھراو ¿ کا الزام عاید کیا اور اسے جامعہ میں داخلے کا بہانا بنایا۔ جبکہ طلبا اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے کافی دور متھرا روڈ پر بسوں کو نذر آتش کیے جانے کے معاملے میں بھی پولیس پر الزام عاید کیے جا رہے ہیں۔ اس پورے واقعہ کی جانچ ہونی چاہیے اور طلبا کے خلاف کارروائی میں ملوث پولیس جوانوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے۔
امام بخاری نے مزید کہا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی پولیس جبراً گھس گئی اور اس نے طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس نے ایک ہاسٹل میں گھس کر آنسو گیس کے گولے چھوڑے جس سے کمرے میں آگ لگ گئی۔ دونوں یونیورسٹیوں کے درجنوں طلبا کو حراست میں لے لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جگہ طلبا پرامن مظاہرہ کر رہے تھے لیکن پولیس نے اپنی ناعاقبت اندیشی سے ماحول کو خراب کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ آسام اور تری پورہ میں متنازعہ شہریت قانون کے خلاف جو مظاہرے ہو رہے ہیں انھیں ہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مظاہرین اس میں کامیاب بھی ہیں۔ لیکن دوسرے شہروں اور بالخصوص دہلی اور علیگڑھ میں ہونے والے مظاہروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی جوسازش کی جارہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس وقت تقریباً پورے ملک میں شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف پرزور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور پورا ملک انتشار میں مبتلا ہے۔حکومت نے اس انتہائی حساس معاملے کو جس طرح عجلت میں آگے بڑھایا اس سے بہت سے خدشات جنم لیتے ہیں۔ حکومت نے شہریت بل کے منظور ہونے کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا کہ اب پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا جائے گا۔ لیکن متعدد ریاستوں نے شہریت قانون اور این آر سی کو نافذ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے مرکز اور ریاستوں میں ٹکراوکی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ عوام اور بالخصوص مسلمانان ہند اپنی شہریت کے سلسلے میں بے چینی و اضطراب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ 
پرامن احتجاج ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے جس کا اظہار رائے کیلئے استعمال کیاجاتاہے ۔المیہ یہ ہے کہ پر امن احتجاج کرنے والوں کے ساتھ پولس اور انتظامیہ دنگائیوں کی طرح سلوک کرنے لگے توپھر ماحول کا خراب ہوجانا ایک فطری عمل بن جاتاہے ۔بدقسمتی سے ایسا ہونے دیاگیا جب کہ اس سے گریز کیاجاناموجودہ صورت حال میں ناگزیر تھا۔
امام بخاری نے کہا کہ حکومت کے اس قدم سے بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ملک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کے خراب ہو جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ، امریکہ، یوروپ اور مسلم ممالک نے اس قانون پر اپنی تشویش کا اظہار کیاہے اور اسے ہندوستانی آئین اور یہاں کی مذہبی رواداری کے منافی قرار دیا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور امریکہ کے مذہبی آزادی سے متعلق اداروں نے کہا ہے کہ وہ حالات پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔