Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 29, 2019

اے نٸے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے ؟

ا
تحریر: عاصم طاہر اعظمی/صدااٸے وقت۔
786 060 1011
930 786 1011
ـــــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

فیض لدھیانوی
نئے سال کی آمد کو لوگ ایک جشن کے طور پر مناتے ہیں ۔ یہ ایک سال کو الوداع کہہ کر دوسرے سال کو استقبال کرنے کا موقع ہوتا ہے ۔ یہ زندگی میں وہ واحد لمحات ہوتے ہیں جب انسان زندگی کے گزرنے اور فنا کی طرف بڑھنے کے احساس کو بھول کر ایک لمحاتی سرشاری میں محو ہوجاتا ہے جس میں وہ تمام اخلاقی اقدار کو پامال کرتے ہوئے آخری حدوں سے گزر جانے میں ذرا سا تامل محسوس نہیں کرتے جن بیہودہ حرکات و سکنات کی وجہ سے کبھی مسلمان اہل مغرب کو شرم و عار دلاتے تھے اب وہ خود اس بے حیائی کی دوڑ میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے کو مضطرب ہے نہ اس وقت قرآنی تعلیمات انہیں یاد رہتی اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نہ اسراف سے بچنے کی فکر اور نہ ہی ضیاع وقت پر شرمندگی جب کہ وقت ایک قیمتی بیش بہا نعمت ہے یہ ایک ایسی نعمت ہے جو ایک مرتبہ گزر جائے دوبارہ واپس آنا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے گزرتے ہوئے ایام تو ہمیں غفلت کے بجائے اپنی غلطیوں کی اصلاح کا موقع دیتے ہیں
،دُنیا بھر میں نئے سال کے جشن بہت سے مختلف طریقوں سے منائے جاتے ہیں ان جشنوں کی شروعات کے بارے میں دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا میں یوں بیان کِیا گیا ہے:
 ”سن ۴۶ قبلِ مسیح میں رومی قیصر جولیس نے یکم جنوری کو سال کا پہلا دن ٹھہرایا،اس لیے جنوری کے مہینے کا نام جانس دیوتا کے نام پر رکھا گیا اس دیوتا کے دو چہرے تھے، ایک چہرے کا رُخ آگے کی طرف اور دوسرے کا پیچھے کی طرف تھا۔“ اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ نئے سال کے جشن اصل میں بُت پرستی سے تعلق رکھتے ہیں

اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بہت سے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی 31 دسمبر کی رات کو آتش بازی اور جشن مناتے ہیں، عیش و نشاط کی محفلوں اور رنگ برنگے سے نئے سال کا آغاز کرتے وقت یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ

غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور بیتادی

ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیاوی زندگی تو فانی ہے جو گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے جس میں ہم لامحدود خواہشات اور آرزوؤں کے جال میں ایسے جکڑتے ہیں کہ وقت مرگ ہی ہوش آتا ہے کہ

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

اے فانی بشر!
کبھی دسمبر کے آخری دنوں میں اپنے بیتے برس کا احتساب بھی کیا ہے کہ خالقِ جہاں نے ہمیں اس سال میں  کن کن نعمتوں سے نوازا؟ اور پھر بھی کہاں کہاں اس کی حکم عدولی کا مرتکب ہوئے؟ ہمارا ہر آنے والا سال ہمیں ابدی منزل کے قریب لے جارہا ہے جہاں ہم سے ہر چیز کا حساب لیا جائے گا، اس جہانِ انتظار میں قدم قدم پر دفاتر ماہ و سال یوم و ہفت کھل جائیں گے، کتاب عمر کے ہر برس کے ورق الٹ جائیں گے تو کیا جشن سال نو کی محفلوں کے تذکرے ہمیں بچا پائیں گے، نہیں ہرگز نہیں بچا پائیں گے .

اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں

         (فیض لدھیانوی