Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 31, 2019

جو چپ رہے گی زبان خنجر ، لہو پکارے گا آستیں کا !!!!



از/شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/صداٸے وقت۔
==============================
گذشتہ 20دسمبر کو میرٹھ کے ایس پی سٹی اکھلیش نارائن سنگھ نے جمہوریت کی سالمیت کے لئے پروٹسٹ کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ،،تم لوگ یہاں سے پاکستان چلے جاؤ ورنہ میں تمہیں برباد کر دوں گا،،
قوم مسلم کو برباد کرنے کی طرح اسی وقت پڑ چکی تھی جب اسلام ایک ننھے سے چراغ کی صورت میں تھا اس وقت سے کسی عہد کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرا جس میں اسے صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی کوششیں نہ کی گئی ہوں،کوئی دور ایسا نہیں گذرا ہے جس میں اس امت کو نیست و نابود کر نے کی اعلانیہ اور زمیں دوز کارروائیوں کا سلسلہ جاری نہ ہوا ہو،مگر امت مسلمہ اس شجر سایہ دار کی مانند آج بھی اپنے پیروں پر اپنے مکمل وجود کے ساتھ کھڑی ہے، دشمنان اسلام کی یہ خواہش ماضی میں بھی ناکام تھی آج بھی نامراد ہے'آئیندہ بھی حسرتوں کے مزاروں کا طواف ان کا مقدر ہوگا۔۔۔۔۔۔

تاہم اس بات سے قطع نظر انسانیت اخلاقیات اور جمہوریت کے حوالے سے ایک ایسا فرد جس نے عوام کے تحفظ کا لبادہ اپنے جسم پر ڈال رکھا ہے جس نے بدامنی انارکی کو دور کرنے کا عہد لیا ہے'اس کی طرف سے اس طرح کے غیر انسانی،اور شرمناک بیان کے تناظر میں اصحاب اقتدار کے مزاج،ملک میں فرقہ وارانہ ماحول اور مسلم دشمنی اور عناد وتعصب کے نتیجے میں شیطانی کرداروں کو سمجھا جا سکتا ہے،کہ ملک کس ذہنیت کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اپنی سالمیت کھو رہا ہے،یا کھو چکا ہے،
اس ملک کی بنیادوں کو استحکام عطا کرنے والی ایک کمیونٹی کے خلاف زہر میں ڈوبا ہوا یہ بیان جہاں انسانیت کے خلاف ہے وہیں اس ملک کے آئین اور جمہوریت کے دامن پر بھی بدنما داغ ہے ،جس پر سیکولر طبقہ چیخ اٹھا ہے'یہاں تک کہ بی جے پی کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہنے والے اس کے تمام شرمناک افعال پر تائید کرنے والے،نام و نہادمسلمان وزیر مختار عباس نقوی  بھی اس کی مذمت پر مجبور ہوئے اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔لیکن باوجود اس کے ہمیں اس حیوانیت پر ذرا بھی حیرت نہیں ہے'اس لیے کہ نفرت وتعصب کی یہ آنچ، مسلم دشمنی کا یہ اثاثہ،  فرقہ پرستی کا یہ مزاج اور بدزبانی کی یہ جرات درحقیقت اس طبقے اور گروہ کے کرداروں کا شاخسانہ ہے جس کی شناخت فسطائیت اور مسلم دشمنی جس کی علامت ہے ،جس کے سیاسی ایوانوں کی عمارتیں مسلمانوں کے لہو اور ان کی لاشوں پر تعمیر ہوئی ہیں، انسانیت سے ناآشنا،اخوت وبھائی چارگی کی صفات سے محروم اس ذہنیت کو اقتدار کی ہوس تھی تاکہ اس کے ذریعے ملک کی فضا کو مخصوص رنگ میں رنگ دیا جائے اور یہ انصاف ودیانت کے ساتھ ممکن نہیں تھا کہ اس ملک کی روح سیکولر تھی اس لیے ایک قوم کے خلاف فکری عملی محاذ جنگ کھول کر فرقہ وارانہ کرداروں کے ذریعے اقتدار کی کرسیوں پر قابض ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ جب ملک کا حکمراں اور فرمانروا جو تمام اقوام ملک کے تحفظ کا عہد لینے کے باوجود  ظلم وجبر کی علامت بن چکا ہو،طاقت کے نشے میں انسانوں کے خون سے کھیل رہا ہو، اوراس ظالمانہ روش پر ملک کے آئین کی بھی  اسے پروا  نہ  ہو،ایک قوم کی دشمنی کے شعلوں  میں  اس کا وجود جل رہا ہو،تو اس کے ماتحتوں  کے ذریعے اگر اس طرح کی زہر افشانیاں ظاہر ہوں تو کیا تعجب ہے'۔۔۔۔کہ عملی لحاظ سے ظلم وسفاکیت کی جو گھٹا چھائی ہوئی ہے'،بربریت کے شعلوں میں جس طرح سماج سسک رہا ہے'اس منظم جارحیت اور حکومتی سفاکیت کے آگے اس کی کیا حیثیت ہے۔

انسان آزاد پیدا ہوا ہے'،آزادی اس کا انسانی حق ہے'،انسانیت کے دائرے میں وہ اپنی فکر میں آزاد ہے'اپنے عمل میں آزاد ہے'،اپنے نظریات وتصورات میں آزاد ہے'،اپنے مذہب وعقائد میں آزاد ہے'جس ملک میں اس کی مذکورہ آزادیاں مسلوب ہوتی ہیں وہاں انسانی قوانین نہیں ہوتے بلکہ وہ جنگل راج اور شیطانی قوتوں کی آمریت ہوتی ہے'،
بھارت کا نظام سیکولر ہے'جمہوریت اس کی شناخت رہی ہے'مگر ادھر چند برسوں سے اس کا لباس داغدار ہونا شروع ہوا تو ہوتا ہی چلا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس کا پورا وجود فسطائیت کے شعلوں میں جل اٹھا،
ملک کے نام نہاد نگہبانوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے ذریعے مسلم دشمنی،تعصب وعناد،فرقہ پرستی،و شدت پسندی کا وہ بدترین ثبوت پیش کیا جس کی مثال سے دور جدید نہیں بلکہ قدیم زمانے کی تانا شاہی فرماں روائیاں بھی خالی نظر آتی ہیں،
ایک جمہوری نظام کے علمبردار ملک میں یہی ستم کیا کم تھا کہ مذہب کی بنیاد پر سیٹیزن شپ کا قانون بنا کر اس کے وقار کو ملیامیٹ کر دیا جائے، مگر قیامت یہ ہے'کہ جب اس انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھی تو اسے دبانے کے لیے پوری طاقت کو جھونک دیا گیا،اور نہتے بے قصور عوام پر فورس کے ذریعے حملے کرکے کھوکھلی بہادری کا مظاہرہ کیا۔
بہادری کا مظاہرہ کیا گیا،اقتدار کی آنکھیں ظالموں کی بہادری اور نہتے بے قصور مظاہرین کی بے بسی کا تماشا دیکھتی رہی،مخالفت کی چنگاریاں چشم زدن میں شعلہ جوالہ بن کر ملک کے طول و عرض پر چھا گئیں تب آمر وقت کے لب کھلے اور لال قلعہ دہلی میں حسب معمول
این آر سی جیسے سیاہ قانون کے تذکرے کا ہی انکار کر دیا اور اس سفید جھوٹ کے ذریعے انہوں نے دنیا کو باور کرایا کہ بھارت کی عوام شعور وبصیرت سے محروم ہے'اسے سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں ہے تخیلات اور خوش فہمیوں کی دنیا میں رہنے والے ،انسانوں اور عوام کے احساسات سے عاری اس حکمراں کواب کون سمجھائے کہ ملک کی عوام اندھیرے اور اجالے میں فرق وتمیز کا ہنر جانتی ہے'اور یہ بھی جانتی ہےکہ نیشنل میڈیا
نے موجودہ قوتوں کو اپنا ضمیر بیچ کر ایمان وصداقت فروخت کرکے سکوں سے اپنی تجوریاں بھر لی ہیں۔اب وہ صداقت کی نہیں بلکہ ایک مخصوص فکر کی ترجمان ہیں'۔


جمہوری نظام کو اپنی انا پر قربان کرنے والےاس کھیل میں مرکزی حکومت تو تھی ہی مگر یوپی کی ریاستی حکومت نے ظلم وستم کی ساری سرحدیں پار کردیں،اور مسلمانوں کے خلاف حکومتی طاقت کے ذریعے سفاکیت کا وہ کھیل کھیلا کہ انگریزی استبداد کا منظر نگاہوں میں گھوم گیا،وزیر اعلیٰ نے مسلمانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرکے بدترین انتہا پسندی اور تعصب کا مظاہرہ کیا ہے،
ایک ایسا قانون جس میں تمام اقوام کو شامل کیا گیا ہو،اور ملت اسلامیہ کو محض اس وجہ سے محروم کردیا گیا ہو کہ وہ مسلمان ہے'یہ جمہوریت کے بھی خلاف ہے'،انسانیت اور انصاف وعدالت سے بھی متصادم ہے'،ملک کے آئین کے بھی متوازی ہے'،سیکولر ازم کے لئے بھی بدنما داغ ہے'،اس کے خلاف آوازوں کا اٹھنا،احتجاج کا رونما ہونا اور پر امن جلوس کا مظاہرہ کرنا عوام کا بنیادی حق اور آئینی اختیارات میں شامل ہے طاقتوں کے ذریعے ان پر پابندیوں کی کوشش دراصل نازی ازم اور تانا شاہی کا اعلان ہے'،اور اب یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ  بی جے پی کی مرکزی حکومت سے لیکر ریاستی حکومتوں خصوصاً یوپی کی حکومت نے اپنے ظالمانہ کردار اور جابرانہ بربریت سے خود کومسولینی اور ہٹلر کی صف میں کھڑا کردیا ہے'،

اترپردیش کے ان تمام علاقوں اور خطوں میں جہاں جہاں بھی احتجاج ہوئے عموماً پرامن رہے مگر پولیس اور بدقماش ، فسطائی ذہنیت اورانسانیت سے ناآشناقسم کے پولیس آفیسروں کی ناحق جارحیت نے سازگار ماحول کو افراتفری اور لہو رنگ کر ڈالا،انھوں نے پوری طاقت سے بے قصور مظاہرین پر لاٹھیاں چلائیں ،ان کے اجسام کو زخم زخم کرڈالا بے شمار افراد لہو لہان ہوئے،ان درندہ صفت انسان نما بھیڑیوں نے عوام پر گولیاں چلائیں،بے دردی سے فائرنگ کی اور بیسیوں نوجوانوں اور بچوں کو خاک وخون میں تڑپنے پر مجبور کر ڈالا،
حکومت بجائے اس کے کہ اس پر ایکشن لیتی اس نے مسلمانوں سے اس کے انتقام کا اعلان کرکے اپنی کمظرفی ،فکر وسوچ کی پستی،اور انتہا پسندی کا بدترین ثبوت فراہم کیا،
کیا قیامت ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آوازیں بلند کرنے والوں پر ایک جمہوری ملک اور سیکولرازم کے دعوے دار ملک میں ظلم وسفاکیت کے پہاڑ بھی توڑے گئے اور ان کی آڑ میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر انھیں کو مجرم بھی قرار دے دیا گیا،اس نقصان کے نام پر سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا گیا،بے شمار بچوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا، مصدقہ خبروں کے مطابق سو بچوں کو صرف لکھنؤ شہر سے اٹھایا گیا ان پر تشدد کی راہیں پولیس پر کھول دی گئیں،میرٹھ کے مسلمانوں سے چھ لاکھ کی رقم کا تاوان محض اس لیے اصولا گیا کہ انھوں نے احتجاجی مظاہرے میں کیوں شرکت کی تھی،وزیر اعلیٰ کی انتقامی کارروائی کے اعلان پر مسلمانوں کی املاک پر ہاتھ صاف کرنے کی وہ ہوڑ شروع ہوئی کہ ایک ہی روز میں مظفر نگر کے علاقہ میں ستر دکانوں کو سیل کردیا گیا اب تک جانے کتنے کاروباری لوگوں کو بے روزگار کتنے افراد کو اس کے سرمائے سے محروم کیا گیا اس کا اندازہ نہیں ہے۔واضح رہے کہ یہ سارے جرائم اور مظالم اس شخص کے اعلان پر ہوئے اور ہورہے ہیں جو اس ریاست کا کاغذی نگہبان ہے جس نے اپنی جارحیت،اپنی انتہا پسندی،مسلم دشمنی،میں سیکولر ازم کے ساتھ ساتھ انسانیت اور انصاف دیانت کا خون کرڈالا ہے، یہ بات صد فی صد حقیقت ہے کہ کم ظرف کے ہاتھوں میں جب اقتدار آجاتا ہے تو پورے معاشرہ اور ملک کا توازن بگڑ جاتا ہے،اس وقت یوپی کی ریاست تعصب وانتہا پسندی اور ظلم  و بربریت  کا ایسا ہی خونچکاں منظر پیش کررہی ہے۔کہ طاقت کے زور پر قتل کرنے والوں کے ہاتھوں میں جو خراش آئی ہے'،مظلوموں کے اجسام پر چلنے والی گولیوں کا جو نقصان ہوا ہے'،شہیدوں کی گردنوں پر پھرنے والی جن سنگینوں میں ہلکا سا خم آیا ہے'ان سارے نقصانات کا مقتولوں سے تاوان لیا جائے گا۔
مسلمانوں نے اس سرزمین پر ہزار سال تک حکمرانی کی ہے لیکن اس طرح کہ انصاف و  رواداری اور اخوت ومساوات کے ساتھ اس ملک کو ہر لحاظ سےارتقاء کی منزلیں عطا کر دیں ،یہاں ستر سالوں میں طاقت کا ایسا نشہ چھایا کہ انسانیت ورواداری کے علاوہ یہ بھی یاد نہیں رہ سکا کہ  اس ملک کی روح جمہوریت ،اس کا حسن، سیکولر ازم ۔اور اس کی ترقی واس کا اقبال۔ مساوات اور عدل میں مضمر  ہے'انہیں بنیادوں پر اس کا قیام ہوا اور انہیں اصولوں پر اس کی سلامتی موقوف ہے'۔۔۔
ان اوصاف کے بغیر کسی بھی ملک کی سلامتی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا، جارحیت وسفاکیت،کسی ایک قوم کے خلاف طاقت کا غلط استعمال ،انصاف ودیانت سے عاری فرقہ وارانہ قانون سازی اور اس کے نفاذ سے ملک میں انارکی ،بدامنی اور بد عنوانی تو پھیل سکتی ہے'امن قائم نہیں ہو سکتا۔
ظلم وبربریت سے اور اقتدار کی طاقت سے چند ایک ضمیر وظرف کی سوداگری ہوسکتی ہے اصحاب عزیمت اور ملک ووطن کی سالمیت پر احتجاج کرنے والوں کی آواز کودبایا نہیں جاسکتا۔شہیدوں کے لہو کی سرخیوں نے ہمیشہ انقلاب کی تاریخ رقم کی ہے'،مظلوموں کی فریادوں نے ہر دور میں ستمگروں کے قصرہائے استبداد میں زلزلہ پیدا کیا ہے'،بے قصوروں کی آہوں میں چھپے ہوئے طوفان جب اٹھتے ہیں تو تمام قوتوں کے سرمائے کو بہا لے جاتے ہیں'۔ انگریزی استبداد  کی پوری تاریخ اس کا روشن ثبوت ہے' اگر یہ ممکن ہوتا تو
آج ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں بدستور جکڑا ہوا ہوتا۔
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار شواجی نگر گوونڈی۔ممبٸی۔