Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 23, 2019

مٸو میں دوران احتجاج ہوٸے تشدد کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ازعبد الغفار سلفی ۔۔۔بنارس۔

از/ عبد الغفار سلفی۔/صداٸے وقت۔
==============================
جامعہ ملیہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، علی گڑھ میں جو کچھ ہو رہا ہے، بے قصور طلبہ کے ساتھ جس قسم کا ظلم وتشدد ہو رہا ہے وہ نہ صرف افسوس ناک، کرب ناک اور قابلِ مذمت ہے بلکہ یہ کمزور اور بے بس طلبہ ہماری ہر قسم کی تائید اور حمایت کے حقدار ہیں. لیکن یاد رکھیں ہم اس وقت ایسی طاقتوں کا سامنا کر رہے ہیں جو نہ صرف انتہائی ڈھیٹ اور بے شرم ہیں بلکہ رحم و مروت اور انسانیت جیسی قدریں انہیں چھو کر بھی نہیں گئی ہیں.  ہم پوری طرح صحیح ہوں تب بھی ہمیں ان سے کسی قسم کے خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے،  ایسی صورت میں ہمارا ایک بھی نا مناسب اور غلط اقدام ملک و ملت کو اور بڑی تباہی میں لے جا سکتا ہے.

میں اس وقت مئو میں ہوں، ایک دینی پروگرام میں شرکت کے لیے آیا تھا، مرزاہادی پورہ میں کچھ اسٹوڈنٹس احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے، سننے میں آ رہا ہے کہ مظاہرہ کے دوران کچھ شر پسندوں نے پولیس تھانے میں آگ لگا دی، نتیجہ یہ ہوا کہ پورا علاقہ پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا ہے، افرا تفری کا ماحول ہے، پولیس ہوائی فائرنگ کر رہی ہے، دکانیں بند کر کے لوگ گھروں کو بھاگ رہے ہیں، ممکن ہے دیر رات تک پورے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا جائے. حالات کے پیش نظر میں بنارس واپسی کے لیے ٹرین میں سوار ہو چکا ہوں. 
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اس وقت غم و غصے میں ہیں، جوش میں ہیں، مگر جوش کے ساتھ ہوش بھی ضروری ہے. نری جذباتیت اکثر کام بگاڑ دیتی ہے اور وہی اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں ہو رہا ہے.

بارہا کہا جا رہا ہے اور لکھا جا رہا ہے کہ احتجاج ہونا چاہیے مگر قانون کے دائرے میں رہ کر اور پرامن ہونا چاہیے. پبلک پراپرٹی کو نقصان بالکل نہیں پہنچنا چاہیے. یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان مظاہروں کو مذہبی شکل نہ دی جائے، ملک کا ایک بڑا سیکولر طبقہ ہمارے ساتھ ہے. مگر کہیں اپنوں کی نادانی سے اور کہیں غیروں کی سازشوں سے معاملات بے حد خراب ہو رہے ہیں اور احتجاج تشدد کی شکل لے رہا ہے، پھر پولیس موقع پر پہنچ کر بجائے تشدد کا سد باب کرنے کے خود ظلم و تشدد کی مثالیں قائم کر رہی ہے.

ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہماری ساری کوششیں ملک کی سلامتی اور امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لیے ہی ہیں، اگر ہماری یہ کوششیں ہی نقض امن کا سبب بن رہی ہیں تو پھر یہ ہمارے لیے اور بھی بڑی مصیبت کا راستہ کھول رہی ہیں.

یہ بھی یاد رکھیں کہ ملک ان واقعات کو ٹی وی اور اخبارات کے اینگل سے دیکھ رہا ہے اور پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں میڈیا اس وقت بالکل یکطرفہ اور متعصبانہ رپورٹنگ کر رہا ہے. ملک کے بیشتر لوگ ان احتجاجی کارروائیوں میں ہونے والے تشدد کا ذمہ دار خود مظاہرین کو ہی مان رہے ہیں. رہ گیا سوشل میڈیا تو یہاں ہر فریق کے پاس اپنے مطلب کا مسالہ ہے، ایک ہی ویڈیو سے دو الگ الگ طرح کے مطلب نکالے جا رہے ہیں. ایک ہی تصویر میں دو دو الگ رنگ بھرے جا رہے ہیں.

اس لیے سب لوگوں سے بالخصوص نوجوانوں سے اپیل ہے کہ جوش کے ساتھ ہوش سے کام لیں، بنا کسی ذمہ دار کے اور بغیر پرمیشن کے کسی قسم کا مظاہرہ اپنے طور پر نہ کریں، بھیڑ کو قابو رکھنا نہایت مشکل ہوتا ہے بالخصوص اس وقت جب کہ اس بات کے قوی امکانات ہوں کہ  بھیڑ کا فائدہ اٹھا کر کچھ شر پسند عناصر تخریبی کاروائی کر کے ہماری ان کوششوں کی نہ صرف مٹی پلید کر دیں گے بلکہ ہمارے خون کی ہولی کھیلنے کا موقع پا جائیں گے . امن اور چین سب سے بڑھ کر ہے اور اسی کے قیام و بقا کے لیے ہم فرقہ پرست طاقتوں سے لڑ رہے ہیں. ہم کسی بھی طرح کسی قسم کی بد امنی کا سبب نہ بنیں، محتاط رہیں، جاگتے رہیں اور جگاتے رہیں، اللہ مدد کرے. 

( عبدالغفار سلفی ،بنارس)