Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, January 15, 2020

شاہین باغ اور خوفزدہ حکمراں۔

از/ مشرّف عالم ذوقی /صداٸے وقت۔
============================
میناکشی لیکھی نے شاہین باغ احتجاج کو کچلنے کی دھمکی دی . امت شاہ نے احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا۔ حکومت کچھ بھی سننے کو تیار نہیں، مگر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت خوفزدہ ہے آج شاہین باغ سے اٹھنے والی صدا پورے ملک میں گونج رہی ہے۔ 
گیا ، پٹنہ، خریجی ، دلی کے مختلف علاقے ، یوگی کے ظالمانہ سلوک کے باوجود اتر پردیش تک شاہین باغ کی آواز پھچ چکی ہے۔ ذرا جائزہ لیجئے کہ اس احتجاج میں کس طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں مسلمان بھی ہیں، بزرگ عورتیں بھی۔ ۸۰ سے زیادہ عمر والے مرد بھی ، چھوٹے چھوٹے بچے بھی ، اور نوجوان جو تعلیم روزگار سب کچھ بھول کر اس تحریک کا حصّہ بن گئے ہیں اور اس لئے بنے ہیں کہ اگر وہ انصاف کی جنگ ہار گئے تو ملک آنے والے وقت میں غلامی کے اندھیروں میں چلا جائے گا ، فسطائی طاقتیں ملک کے ٹکرے ٹکرے کر ڈالیں گی، مودی نے آر بی آی کو خالی کر دیا ، ابھی بھی ۴۵ ہزار کروڑ کی ضرورت ہے، ان شر پسند طاقتوں نے ملک کو کھوکھلا کر دیا، اور اب نفرت نفرت کے کھیل سے اپنی حکومت بچانا چاہتے ہیں ،، کیا اپنے حق کے لئے سڑکوں پر آنا جرم ہے ؟ انہوں نے کیا نہیں کیا ؟ جے این یو گواہ ہے۔ جامعہ گواہ ہے، علی گڑھ گواہ ہے، پولیس اور بھگوا آتنکوادیوں نے خون کی ہولی کھیلی، ان کے پاس دینے کو صرف موت ہے، اور اس لئے آج ملک کا ہر چوراہا شاہین باغ ہے، مسلمانوں کے ساتھ ہر طبقہ ڈاکٹر ، سابق جج ، وکیل ، انجینئر ، مل کر شاہین باغ تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔
۔صحافت کے اصولوں میں سے ایک ہے کہ انتظامیہ اور سسٹم کی صحتمند تنقید کی جائے ۔اس سے عوام اور حکومت کے درمیان توازن برقرار رہتا ہے۔ ان چھ برسوں میں نہ صرف دیش بھکتی کی نئی تعریف گڑھی گئی بلکہ جمہوریت کے چوتھے ستوں کو گرا کر اس توازن کو ختم کر دیا گیا —
آئین کی دفعہ 124 (ع) میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص ملک کے خلاف لکھ کر، بول کر، یا پھر کسی بھی طرح کے اظہار سے بغاوت کرتا ہے، لوگوں کو اکساتا ہے، یا پھر نفرت پھیلانے کا کام کرتا ہے تو آئی پی سی کی کیس 124 (A) اس پر قائم ہے. اس قانون کے تحت، مجرم شخص کو قید کی سزا کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا کا حکم گیا ہے۔ برطانوی حکومت میں یہ قانون بنا، جبکہ یہ قانون اب ان کے یہاں بھی نہیں ہے۔
اس دفعہ کو لے کر سپریم کورٹ نے بھی کچھ فیصلے سنائے ہیں کہ کوئی بھی حرکت، حکومت یا نظام کے خلاف ہو یا پھر کوئی تنقید ہوتی ہے تو اسے غداری نہیں کہا جا سکتا، بلکہ اس بغاوت کی وجہ سے کوئی تشدد اور قانون کا مسئلہ پیدا ہو تبھی غداری کا کیس بنے گا. سپریم کورٹ نے 1962 میں کیدار ناتھ بمقابلہ بہار ریاست کے کیس میں تاریخی فیصلہ دیا تھا۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے فیڈرل کورٹ آف انڈیا (برطانوی) سے اتفاق کیا۔ سپریم کورٹ نے کیدارناتھ کیس میں تاریخی فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت کی تنقید یا پھر انتظامیہ پر کیا گیا تبصرہ غداری کی زمرے میں نہیں آتا ہے۔ مارچ 2015 میں، سپریم کورٹ نے اسے آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 66A کو منسوخ کرتے ہوئے صاف کیا تھا کہ آئینی حدود کے باہر کی چیزوں کے لئے مناسب کارروائی کی جا سکتی ہے۔ قانون ساز سولی سوراب جی نے کہا تھا کہ حکومت پر تنقید کرنے والے غدار نہیں ہو سکتے، کچھ برس قبل گجرات میں ریزرویشن کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریک شروع کرنے والے ہاردک پٹیل کو بھی اکتوبر 2015 میں گجرات پولیس کی جانب سے غداری کے کیس کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ستمبر 2012 میں کاٹورنسٹ اسیم ترویدی کو بدعنوانی مخالف تحریک کے وقت ویب سائٹ پر آئین سے منسلک تصاویر پوسٹ کرنے کی وجہ سے اسی الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم، اس کے بعد سے الزامات واپس لے گئے تھے۔ 2007 میں بنائیک سین پر نکسل نظریات کو پھیلانے کے الزام میں غداری کا مقدمہ درج کر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت مل گئی۔ 2010 میں اروندھتی رائے اور حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی پر کشمیر – ماؤنوازوں کے حق میں ایک بیان دینے کی وجہ سے غداری کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اصل غداری یہ ہے ….
حکومت ، مرکزی کابینہ ، وزرا کی طرف سے دئیے جانے والے زیادہ تر مخالف بیانات کا پس منظر یہ رہا ، کہ دنگے بھڑکے ، نفرت کا پر تشدد ماحول پیدا ہوا۔ ملک کے حالات خراب ہوئے۔ یہ غداری ہے …. ملک کے مختلف حصّوں میں آگ لگی۔ انسانیت داغدار ہوئی — ۔ یہ وہ بیانات تھے جنہوں نے گووند پانسرے ، بھولکر ، کلبرگی ، پہلو خان ، اخلاق کو مارنے میں نمایاں کردار ادا کیا ، یہ وحشت اور دہشت کو زندہ کرنے والے ملک مخالف بیانات تھے جنہوں نے گاؤ رکشکوں کے متعدد مشتعل ہجوم کو پیدا کیا، ان کے تشدد کے واقعات سڑکوں پر آج بھی عام ہیں۔ جے این یو ، جامعہ سے لے کر پورا ہندوستان گواہ ہے اور اب شاہین باغ کے پر امن احتجاج کو بھی نقصان پہچانے کی تیاری چل رہی ہے …. پاکستان اور قبرستان بھیجو جیسے نعرے دینے والے ،قانون اور آئین کی شق سے ملک غدّاری اور دیش دروہ کے دائرے میں آتے ہیں۔ کیونکہ ایسے ہر اشتعال انگیز بیان کے بعد فسادات ، انسانوں کی ہلاکت ، جان و مال کے نقصان جیسی خبریں سامنے آی ہیں۔ اس مکمل جائزے پر آئیے تو میڈیا کی فروخت ایک سنسنی خیز اور خوفناک معاملہ بن کر سامنے آتا ہے۔ ملک کے بیشتر چینلوں نے مخالف آگ بھڑکا کر انسانی جانوں کا زیاں کیا ہے۔ اور آج بھی کر رہے ہیں۔ میڈیا نے بھروسے اور اعتماد کو توڑتے ہوئے ملک کو کمزور کرنے اور فسادات میں نمایاں کردار ادا کرنے کا کام کیا ، یہ ملک سے غداری ہے۔ گوری لنکیش کے بعد ر مسلمانوں کو کتے کے پلے بتانے والے بیانات ملک دشمنی کے دائرے میں آتے ہیں. جھوٹ پر جھوٹ اور پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنا بھی جرم کے دائرے میں آتا ہے۔ احتجاج ہر شہری کا حق ہے اور اب ان تحریکوں سے سارا ہندوستان واقف ہو چکا ہے کہ فسطائی طاقتوں کی منشا کیا ہے۔ یہ بھی جان گیا ہے کہ گجرات کے دو تاجر مسلمانوں سے کیسی نفرت رکھتے ہیں۔
گاندھی کے عدم تشدد کے رویہ نے فرنگی حکومت کو خوفزدہ کر دیا تھا، ملک کے پر امن احتجاج نے ملک کے حکمرانوں کو ڈرا دیا ہے، اس لئے حکومت بھگوا آتنک وادیوں کا سہارا لے کر تحریک کو تشدد کا رنگ دینا چاہتی ہے۔ ہم ایسے لوگوں پر نظر رکھیں ، یہ ضروری ہے۔