Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 17, 2020

موجودہ حالات اور ملت اسلامیہ ہند کی ذمے داریاں۔

از/حافظ شرف الدین فلاحی۔/صداٸے وقت۔
===================

آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں ہندوستان کے اندر موجودہ فاشسٹ اور انسانیت دشمن طاقتیں حکومتی مشینری کی مدد سے اور طاقت و قوت کے نشے میں دھت، انسانیت دشمن قوانین کی تقنین کر کے اپنے بھگوائی ایجنڈے کو  لاگو کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں- انکا مقصد، مطمح نظر اور ایجنڈا دو دو چار کی طرح واضح ہے- وہ اپنے ہندتوا، برہمنیت اور منو وادی نظریئے کو بزور طاقت تمام ہندوستانیوں پر تهوپ دینا چاہتی ہیں- یہ فرعونی طاقتیں چاہتی ہیں کہ مسلمان اسلام سے توبہ کر لیں اور کفر و شرک کے رنگ میں رنگ جائیں- انہیں معلوم ہے کہ مسلمان اگر وہ اپنے دین کی طرف پلٹ جائیں اور اپنے اللہ سے لو لگا لیں تو ان کے ہندو راشٹرا کے منصوبے اور راستے میں سب سے بڑی روکاٹ بن کر کهڑے ہو جائیں گے- چنانچہ یہ طاقتیں ہر طرح کے سیاہ قوانین بنا کر مسلمانوں کو سوئم درجے کا شہری بنانا چاہتی ہیں اور اس بات کی بهی شدید خواہش رکهتی ہیں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو غیر ملکی اور گهس پیٹهیے ہونے کے الزام میں کال کوٹھریوں میں پهینک دیں تاکہ مسلمان اس قابل نہ رہیں کہ انکے راہ کا روڑا بن سکیں اور نتیجے میں ان فاشسٹ طاقتوں کے لیے اپنے ہندو راشٹرا کے قیام اور دوسرے تمام سیاہ منصوبوں کی تکمیل اور انہیں واقعیت کا جامہ پہنانے میں کسی بڑی دقت کا سامنا نہ  ہو سکے-

ایسے کٹهن وقت میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری دینی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں- ایک مسلمان کسی بهی حال میں ظلم و ستم اور تشدد برداشت نہیں کرتا، خاص طور پر جبکہ مسئلہ اس کے دین میں کهلی  دخل اندازی اور اسے اس کے دین پر چلنے سے روکنے کا ہو- یہ فردا فردا ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسی باطل طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ضروری ہے کہ ہم آر آر ایس اور مرکز میں اسکی حکومت کے بهگوائی ایجنڈوں اور منصوبوں کو بے نقاب کریں، گهر گهر پہنچ کر مستقبل قریب و بعید میں نظر آنے   خطرات سے مسلمانوں اور دوسرے برادران کو آگاہ کریں اور انہیں ان خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار کریں-

ہم اچهی طرح سمجھ لیں کہ آج جس سیاہ اور خطرناک صورتحال کا ہم سامنا کر رہے ہیں یہ صورتحال کوئی دو چار مہینوں یا دو چار سالوں میں پیدا نہیں ہو گئی بلکہ یہ صورتحال دہائیوں سے دین سے ہماری دوری، دین کو ایک مکمل نظام حیات کو نہ سمجھنے اور نہ عمل کرنے کا براہ راست نتیجہ ہے- اس لمبے عرصے میں یہ باطل طاقتیں اپنے ایجنڈوں اور منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے حد درجہ محنت کرتی رہیں اور گهر گهر جا کر اپنے افکار و نظریات کا پرچار کرتی رہیں اور دوسری طرف ہم مسلمان جن کے کندھوں پر خالق کائنات نے سب سے عظیم ذمہ داری ڈالی تهی، سوتے رہے- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں دعوتِ دین اور اس راہ میں عزیمت سے کام لینے کی جو مہلت اللہ تعالی نے ہمیں دی تهی، اسکے اختتام کا وقت بہت زیادہ کچھ نہیں رہ گیا ہے- اس بچے کچے وقت میں اگر ہم نے اپنی انتہائی جدو جہد کے ذریعے اس سیاہ صورتحال پر کنٹرول کرنے اور اسے واپس پلٹنے کے لیے اپنے حصے کی ذمے داری نہیں نبهائی اور دن رات ایک کر کے اپنے حصے کا دیا نہیں جلایا تو شاید اللہ تعالی اپنی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے جسے وہ کسی کے لیے بدلا نہیں کرتا ہم مسمانوں کے لیے ہندوستان میں زمین کو اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ کر دے اور تمام طرح کی ذلت و رسوائی ہم مسلمانوں پر مسلط کر دے- اگر ایسا ہوا تو ذلت رسوائی سے بهری یہ زندگی اور غیر اقوام کی عبودیت تو ہو گی ہی، آخرت میں بھی ایسے کاہل، بے حس اور وہن کا شکار مسلمانوں کو شدید عذاب کی طرف پهیر دیا جائے گا-

چنانچہ ہم یہ بات اچهی طرح سمجھ لیں کہ دہائیوں سے اللہ کے دین کے ساتھ ہم نے جو کهلواڑ کیا ہے اب اسکی مدت تقریبا پوری ہو چکی ہے- اب اسکے سوا ہمارے پاس کوئی چارا نہیں کہ اسکے دین اور اسکی شریعت کو مضبوطی سے تهام لیں اور پهر اس راستے میں پیش آنے والی تمام پریشانیوں اور مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کریں، ورنہ ہمارا ایک مسلمان گهر میں پیدا ہونا ہمارے کسی کام نہ آ سکے گا-

حافظ شرف الدين فلاحی