Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 17, 2020

ممبٸی کے مشہور ڈان ”کریم لالہ “ موت کے 18 سال بعد اس وقت سرخیوں میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھیں پوری کہانی۔

اپنی موت کے 18 برس بعد ماضی کے دور کے ڈان کریم لالہ ایک نئے روپ میں سامنے آرہے ہیں۔

صداٸے وقت /بی بی سی ہندی سروس سے ماخوذ۔

=============================

مہاراشٹر کی سیاسی جماعت شیو سینا کے لیڈر سنجے راؤت نے غیر ارادی طور پر وہ موضوع چھیڑ دیا ہے جس پر پہلے بات نہیں ہوتی تھی۔انھوں نے کہا کہ ملک کی سابق وزیر اعظم اندار گاندھی انڈر ورلڈ کے ڈان کریم لالہ سے ملاقات کرتی تھیں۔ ان کے اس بیان کے بعد ملک بھر میں کریم لالہ اور ان کے کارنامے زیر بحث ہیں۔

جنوبی ممبئی کے پائے دھونی علاقے میں واقع کریم لالہ کے دفتر میں بڑی شان سے لگائی گئی ان کی ایک تصویر اب سب کی نگاہوں کا مرکز بن چکی ہے اور اس کی بنیاد پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اندار گاندھی نے کریم لالہ سے ملاقات کی تھی۔

سونے کی سمگلنگ کرنے والے حاجی مستان وزارتوں میں موجود سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے سے متعلق مذاکرات میں شامل رہتے تھے۔

حاجی مستان اور کریم لالہ دونوں نے ہی اپنی زندگی کا آخری دور اپنی اپنی تنظیموں کے نام کر دیا تھا۔حاجی مستان نے 'دلت مسلم سرکشا مہاسنگھ' نام کی سیاسی تنظیم بنائی تھی اور کریم لالہ نے 'پختون جرگا ہند' نام کی تنظيم تشکیل دی تھی۔اس تنظیم کا مقصد ان پشتونوں کی مدد کرنا تھا جو افغانستان سے انڈیا آئے تھے۔ کریم لالہ خود بھی پشتون تھے اور بہت کم عمری میں انڈیا آگئے تھے۔کہتے ہیں کہ وہ سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان سے کافی متاثر تھے۔

سب سے پہلے بازار پر پیسہ لگانا شروع کیا

انڈیا آنے کے بعد ابتدائی برسوں میں عبدالکریم خان عرف کریم لالہ نے جوا کھیلنے کے کلب کھولے۔جو لوگ ان کلبوں میں رقم ہارتے تھے وہ اپنے گھر کا خرچ چلانے کے لیے خان کے آدمیوں سے ادھار لیا کرتے تھے۔اس روایت کو بدلنے کے لیے خان نے سوچا کہ اگر ہر ماہ قرض پر سود وصول کیا جائے تو لوگ ان سے ادھار لینا بند کردیں گے۔ مگر لالہ نے دیکھا کہ ہر مہینے کی دس تاریخ کو ان کا گلہ سود کے پیسوں سے بھر جاتا تھا۔اس کے بعد لالہ نے سود پر قرض دینا شروع کر دیا۔

اس کے بعد لالہ نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ان کرائے داروں سے زبردستی مکان خالی کروانے کا کام شروع کر دیا جو مکان خالی نہیں کرتے تھے۔

’لالہ کی پر اسرار چھڑی خوف کی علامت کیسے بن گئی‘

50 سال کی عمر تک لالہ بہت مشہور ہو چکے تھے۔ اس دوران کسی ’مرید‘ نے لالہ کو چلنے میں سہارے کے لیے سونے کی نقاشی والی ایک بڑی تاریخی اور نایاب چھڑی تحفے میں دی تھی۔جب لالہ کسی پارٹی یا سیاسی تقریب میں جاتے تو اپنی چھڑی کسی جگہ رکھ کر اِدھر اُدھر چلے جاتے تھے لیکن کسی کی اس کو چھونے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ لوگ اس جگہ پر نہیں بیٹھتے تھے یہ سوچ کر کہ یہ جگہ لالہ کی ہے۔لالہ کے بعض قریبی دوستوں کے دماغ میں یہیں سے یہ خیال آیا کہ کرائے داروں سے مکان خالی کروانے کے لیے کیوں نہ لالہ کی جگہ ان کی چھڑی کا استعمال کیا جائے۔جب کوئی کرائے دار مکان خالی کرنے سے انکار کرتا تھا تو اس کے دروازے کے باہر چھڑی رکھ دی جاتی تھی اور وہ کرائے دار لالہ کے ڈر سے فوراً گھر خالی کردیتا تھا۔ اس چھڑی کو کرائے داروں کے لیے مکان خالی کرنے کا نوٹس سمجھا جانے لگا تھا۔

گنگوبائی نے کریم لالہ کو راکھی باندھی

کریم لالہ کے اثرو رسوخ اور بنیادی طور پر ڈر کے باجود ان کی شبیہ ایک ایمان دار اور انصاف پسند شخص کے طور پر ہوتی تھی۔ گنگوبائی کوٹھے والی جنوبی ممبئی کے کماٹھی پور ریڈ لائٹ علاقے میں کافی مقبول تھیں۔ایک دن وہ کریم لالہ کے پاس شکایت لے کر گئیں کہ ان کی ’مرضی کے بغیر شوکت خان نامی ایک شخص نے دو بار ان کو اپنی جنسی حوس کا نشانہ بنایا‘۔کریم لالہ نے نہ صرف ان کی مدد کی بلکہ انہیں اس شخص کے چُنگل سے بھی چھڑایا۔ انھوں نے اپنے ایک آدمی کو بھیج کر شوکت خان کی پٹائی بھی کروائی۔اور یہ قصہ مشہور ہے کہ گنگوبائی نے اپنے محافظ کریم لالہ کو راکھی بھی باندھی تھی۔

بالی وڈ ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کریم لالہ کی زندگی پر مبنی ایک فلم بنا رہے ہیں جس میں عالیہ بھٹ گنگو بائی کا کردار ادا کریں گی۔

یہ بات بہت زیادہ لوگوں کو نہیں معلوم کہ ممبئی میں مافیا کو سرگرم کرنے میں کریم لالہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کریم لالہ نے حاجی مستان کے ساتھ قربت بڑھائی اور سونے کی سمگلنگ کے کام میں ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ کریم لالہ کی مدد کے بغیر حاجی مستان کے لیے سونے کے کاروبار کی دنیا کا بادشاہ بننا ناممکن تھا اور ساتھ ہی اگر داؤد ابراہیم کے والد کانسٹیبل ابراہیم کاسکر کی حاجی مستان اور کریم لالہ سے دوستی نہ ہوتی تو داؤد ابراہیم انڈر ورلڈ کا رخ نہ کرتے۔

ابراہیم کاسکر بھلے ہی کریم لالہ یا حاجی مستان سے معاشی مدد لینے سے گریز کرتے تھے لیکن ان کے بیٹے کا رویہ مختلف تھا۔ داؤد ابراہیم نے ان دونوں سے ہمیشہ مدد بھی لی اور آخر میں ان کے اثر و رسوخ کو کم بھی کردیا۔

ایمرجنسی کے بعد حاجی مستان اور کریم لالہ دونوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس سے ایک نئے دور کی شروعات ہوئی۔سات فٹ کے کریم لالہ اپنے قد، ٹریڈ مارک، سفاری سوٹ اور گہرے کالے رنگ کے چشمے کے لیے مشہور تھے۔

اب تک داؤد ابراہیم کی شناخت ایک ’گینکسٹر‘ کے طور پر قائم ہوچکی تھی جس نے پشتونوں کو نشانہ بنایا۔

1998

بھلے ہی داؤد ابراہیم نے کریم لالہ کے بھتیجے صمد خان اور ديگر قریبی لوگوں کی جان لی مگر کریم لالہ کو کبھی نشانہ نہیں بنایا۔

آخرکار دونوں کی ملاقات مکہ میں ہوئی، دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور سمجھوتہ بھی کر لیا۔

حاجی مستان اور کریم لالہ کی اپنی برادری میں بہت عزت تھی اور انہیں سبھی تقاریب میں مدعو کیا جاتا تھا۔ دونوں سوشل سرکل میں سرگرم تھے اور شاید ایسے ہی کسی موقع پر انھوں نے اندار گاندھی کے ساتھ تصویر لی ہوگی۔

ویسے اتفاق سے کریم لالہ قانون سے کبھی نہیں بھاگے اور نہ ہی ان کے نام جرائم کی کوئی طویل فہرست تھی۔

90 کی دہائی میں ایک بار ضرور انہیں جبری طور پر مکان خالی کروانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔