Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 20, 2020

اے طلباٸے جامعہ ! آپ کی عظمت کو سلام۔۔۔!!!


از /حکیم نازش احتشام اعظمی/صداٸے وقت۔
==============================
 شہریت کے ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کے خلاف سب سے پہلے شمال مشرقی ریاست آسام کے طلبہ نے آواز اٹھائی اور اس کی باز گشت دارالحکومت دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سنائی دی اور پھر جامعہ کے طلبہ کے خلاف پولیس ایکشن نے احتجاجی مظاہرے کو ملک بھر میں پھیلا دیا ،دہلی پولیس کی بربریت اس قدر وحشیانہ تھی کہ اس واقعہ نے جامعہ کے طلبہ کی تحریک کو ساری دنیا تک پہنچادیا۔ مطالعے میں مصروف بے قصور اور نہتے طلبا و طالبات کے ساتھ لائبریری میں گھس کر پولیس نےجو گھناونی اور شرمناک حرکت کی وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھاکہ انصاف پسند دنیاکے ذی شعور دانشور اور سیکولرزم کے پرستاراسے نظر انداز کردیتے۔لہذا اس پولیسیا بربریت اور ریاستی انارکزم کیخلاف مذہب ، ذات پات ، رنگ و نسل اور زبان و ثقافت کی سبھی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جامعہ کے طلباء کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور آج تک ملک کے سیکولر دستور کو بچانے کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔بہرحال جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں دہلی پولیس نے انسانیت کو کس طرح رسواکیا اوراشک آور گولے داغنے کے بعد وہاں کی ساری لائٹ آف کرکے طالبات کی ساتھ جو زیادتی کی ہے اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیںہے ،وہ ساری خونچکاںداستان دنیاکے سامنے آ چکی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں انصاف کیلئے فریاد لے کر مظلوم طلبا 16دسمبر سے18دسمبر تک گہار لگاتے رہے ، مگر ابھی تک انہیں کہیں سے بھی حوصلہ مند اور اطمینان بخش مدد نہیں مل سکی ہے، نہ تو ابھی تک جامعہ کی وی سی کی ایف آئی آر اور اس گھناونی واردات  کی جوڈیشیل انکوائری کے مطالبے کو کہیں سے منظوری ملنے کی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔ اس سے دہلی پولیس اور قومی دارالحکومت  کا لاء اینڈ آرڈر یا بیورو کریسی جو صد فیصد مرکزی حکومت کے ماتحت کام کرتاہے اس کی کاکردگی بھی شک کے گھیرے میں آ گئی ہے۔اس کے باوجود سلام کیجئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا و طالبات کے عزم وحوصلہ کو جو موسم کی تلخی ،حالات کی ستم ظریفی اور وسائل کی بے مائیگی کے باوجود گزشتہ پندرہ سولہ روز سے مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ انہیں نہ کسی صلے کی پرواہ ہے ، نہ جاہ و منصب کے سفلی لالچ نے سڑک پر اتارا ہے ، وہ اپنے آرام و راحت کو تج کر ملک کے آئین کو بچانے اور اس کی سیکولر شناخت کو برقرار رکھنے کیلئے جان ہتھیلی پر لے کر ہر قسم کی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے مستقل احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
طلبائے جامعہ کا یہ احتجاج اس لئے بھی نتیجہ خیز ثابت ہورہاہے کہ گزشتہ14دسمبر2019کے بعد لندن امریکہ سمیت دنیا بھرکی لگ بھگ چار سو سے زائد معروف اور معیاری جامعات اور دانش گاہوں کے طلبہ  بھی  حکومت ہند ، دہلی پولیس اور یوگی کی بربریت کیخلاف سرپا احتجاج ہوگئے۔مذکورہ بالا تمام یونیورسٹیز کی طلباء تنظیموں نے حکومت ہند کو مذمتی مکتوب لکھ کر یہ پیغام دیا ہے کہ ملک کے آئین کی دھجیاں بکھیر کر زعفرانی گورنمنٹ نے ساری دنیا میں ہندوستان کی سیکولر شبیہ اور اس کے جمہوری اقدار کو داغدار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ہارورڈ، ییل، ​​کولمبیا، آکسفورڈ اور ٹفٹس سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے اسکالرز کے جاری کردہ بیان میں’’جامعہ اور اے ایم یو میں طلبا کے خلاف ہونے والے وحشیانہ پولیس تشدد کو آئین ہند اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے‘‘۔لندن میں آکسفورڈ اور امریکہ میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ریاستہائے متحدہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی وکالت کرنے والی تنظیم انڈین امریکن مسلم کونسل (آئی اے ایم سی) نے بھی شہریوں کے متنازعہ قانون کے خلاف مظاہرین پر پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔لہذا حکومت ہند کو اس خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہئے کہ وہ طاقت کے زور پر یا آر ایس ایس کے تلوار بازوں کی بدولت ملک کے آئین کو روندنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا بھرکی یونیورسٹیز کے طلبا کے مظاہروں نے اس مسئلہ کو ایک عالمی مسئلہ بنادیا ہے اور اب یہ احتجاج منطقی انجام کو پہنچنے کے بعد ہی خاموش ہوپائے گی۔ ساتھ ہی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس  متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر حکومتی کریک ڈاؤن کی سخت مذمت کی ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے مودی سرکار پر زور دیا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے اور متنازع شہریت قانون کو ختم کیا جائے جو عالمی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے ،کیونکہ ان میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ قانون کے خلاف 12 دسمبر سے جاری احتجاجی تحریک میں سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد سے اب تک 8 سالہ بچے سمیت لگ بھگ 80 سے زائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اس کالا قانون کیخلاف آواز اٹھانے والوں کو گرفتارکیا گیا ہے، جس  کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور خصوصاً ہزاروں کی تعداد میں عوام کی گرفتاریوں کی خبریں برابر آ رہی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ  تمام اموات ان ریاستوں میں ہوئی ہیںجہاں بی جے پی کی حکومت ہے جن میں سے 30افراد اترپردیش، 5 آسام اور 2 کرناٹک میں ہوئیں۔مظاہرے کے دوران پولیس کی گولی سے جاں بحق ہونے والے زیادہ تر افراد مسلمان ہیں۔اس کو قطعی نظر اندازنہیں کیا جاسکتا کہ عالمی برادری ان ظالمانہ کارروائیوں اور پولیس کی بربریت کا نوٹس نہیں لے گی۔
خیال رہے کہ لندن کے کئی بڑے تعلیمی اداروں میں جن کی دنیا بھر میں شہرت ہے جیسے ہارورڈ اور آکسفورڈ کے طلباء نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ میں واقع مسلم یونیورسٹی کے طلباء پر احتجاج کرنے کی پاداش میں پولیس کریک ڈاون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس موقع پر آکسفورڈ کے طلباء ، اسکالرس اور سابق طلباء نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی بربریت کی وہ مذمت کرتے ہیں ۔ احتجاج کرنا طلباء کا حق ہے اور اگر یونیورسٹی کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج درج کروا رہے تھے تو ان پر پولیس کی طاقت کا استعمال کرنا قطعی ناجائز ہے ۔ اس طرح ہارورڈ یونیورسٹی کے طلباء نے بھی حکومت ہند کے خلاف ایک کھلا مکتوب تحریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ اور مسلم یونیورسٹی کے طلباء پر پولیس کی جانب سے کئے گئے ظلم نے انہیں تشویش اور صدمہ میں مبتلا کردیا ہے ۔ خصوصی طور پر طالبات پر جو لاٹھی چارج کیا گیا ہے وہ انتہائی بدبختانہ ہے ۔ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی کیا جارہا ہے ۔ کل لندن میں بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہندوستانی سفارت خانے کے روبرو مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا ۔ تازہ صورت حال یہ ہے سیکولرزم کو تہ وبالا کردینے والے اور آئین ہند کی اہمیت پر شب خون مارنے والے اس قانون کیخلاف ہندوستان کی 60یونیورسٹیز ،جن میں کم ازکم چالیس سے زائد سینٹرل یونیورسیٹیاں بھی شامل ہیں ،ان کے طلبا ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں مظاہرے کررہے ہیں۔ جبکہ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق انڈیا میں پہلی بار ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ کسی بھی ریاست میں ایسی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے نہیں ہیں ،جہاں سی اے اے کی مخالفت نہیں ہو رہی ہے۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ابھی بھی مظاہرے جاری ہیں اور وہاں روزانہ دن ایک بجے سے شام چھ بجے تک طلبہ کے ساتھ مقامی افراد بھی مظاہرے کرتے ہیں۔ جامعہ ملیہ کے پروفیسر اور سابق طلبہ ایکٹیوسٹ منیشا سیٹھی اس بارے میں  کہتی ہیں کہ  ’ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، لوگ ایسے اداروں سے بھی سی اے اے کے خلاف باہر نکلے جہاں سے پہلے کبھی نہیں نکلتے تھے۔ جامعہ میں تو طلبہ یونین ہیں ہی نہیں اور نہ ہی طلبہ قیادت کو فروغ دیا گیا ہے، تاہم نوجوان از خود باہر نکلے ہیں اور اس کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس میں خواتین کی شرکت حوصلہ افزا ہے۔ یہ ایک پیغام ہے کہ ملک میں ہر چیز کو برداشت نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔