Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, January 11, 2020

سی اے اے پر حکومت کا نوٹیفیکیشن۔۔۔۔۔اگلا قدم کیا ہوگا ؟


از قلم /س ہ ندوی/ صداٸے وقت
===========================
گذشتہ رات یعنی ۱۰ جنوری سنہ ۲۰۲۰م کو حکومت ہند نے  باوجود تمام تر مخالفتوں کے سی اے اے پر نوٹیفکیشن جاری کر ہی دیا ۔ یعنی ۱۰ جنوری ۲۰۲۰ سے سی اے اے کا کالا قانون پورے ملک میں نافذ ہو گیا ۔ مختلف تنظیموں اور افراد کی طرف سے اس قانون کے خلاف مختلف کورٹس میں پیٹیشنس داخل کی گئی تھیں جن کی سنوائی اب سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ایک ہی جگہ پر اپیکس کورٹ میں کی جائیگی، جسکی تاریخ ۲۲ جنوری رکھی گئی ہے ۔ لیکن چیف جسٹس صاحب کے حالیہ بیان سے “ہم سنوائی اس وقت شروع کرینگے جب تک وایلنس ختم نہیں ہوجاتا “ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کا ارادہ کس طرف کا ہے ۔

جب سے حکومت نے اس کالے قانون کو لانے کا ارادہ کیا ہے اس وقت سے لیکر اب تک کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حکومت اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے کوئی امید لگانا بالکل فضول ہے ۔ حکومت اپنی تمام تر مشنریوں کو اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے لئے استعمال کرے گی ۔ لیکن کہیں نہ کہیں اسے یہ خوف بھی ستا رہا ہے کہ اس کا کھیلا ہو گیم اس پر الٹا نہ پڑ جائے ۔ سی اے اے کے پاس ہو جانے کے بعد جس طرح کی مزاحمتیں مختلف جماعتوں ،تنظیموں اور ہندوستان کی عام جنتا کی طرف سے ہوئی ،اس کا اندازہ بالکل حکومت کو نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جس حکومت نے سی اے بی کو صرف دو دنون میں سی اے اے بنا دیا یعنی دونوں ایوانوں میں پاس کروا کے صدر جمہوریہ کی دستخط بھی کروادی گئی اسے نوٹیفیکیشن جاری کرنے میں ۲۰ دن سے زائد کا عرصہ لگ گیا ، اور اس دوران اس نے ایڑی چوٹی کا زور اس جھوٹ کو پھیلانے میں لگا دیا کہ سی اے اے سے کسی بھی ہندوستانی مسلمان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا اور نا ہی یہ ہندوستان کےدستور کے منافی ہے ۔ جبکہ دو دو چار کی طرح یہ بات صاف ہے کہ سی اے اے + این آر سی کا وکٹم سیدھے طور پر مسلمان ہیں ۔ اب یہ بات تو انجنااوم کشیپ کو بھی سمجھ میں آنے لگی ہے ۔
اس بات کے برملا اظہار کرنے میں ہمیں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہئے کہ سی اے اے اور اس جیسے تمام قوانین کا نشانہ فی الحال مسلمان ہی ہیں لیکن آہستہ آہستہ تمام اقلیتوں اور دبے کچلے طبقات کا بھی یہی حشر ہوگا ،گرچہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔
مسلمانان ہند کے لئے خوشی کی بات یہ ہے حالیہ قضیہ میں طوعا یا کرہالگ بھگ تمام اپوزیشن پارٹیوں کی حمایت انہیں حاصل ہے اسی طرح سماجی اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں ، میڈیا    کا ایک دھڑا اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستان کے جمہوریت پسند عوام بھی کھل کر ان کا ساتھ دےرہے ہیں ۔
حکومت اور ارباب اقتدار سے اپنی ساری امیدیں ختم ہو جانے کے بعد نگاہیں اب سپریم کورٹ کی طرف ہیں ۔ حالیہ کچھ دنون میں ملک کی عدالت عظمی سے جس طرح کے فیصلے صادر ہوئے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے اس بات کا خدشہ بڑھنے لگا ہے کہ عدالت بھی خدا نہ خواستہ حکومت کے دباو کا شکار نہ ہو جائے ۔  اسی لئے ضروری ہے کہ اسے وہیں سے روکنے کی کوشش کی جائے ۔
جمہوریت میں چونکہ سر گنے جاتے ہیں اسلئے وقت کی نزاکت اور آئندہ کے خدشات کو بھانپتے ہوئے ان تمام لوگوں کی طرف سے جو اس قانون کو دستور مخالف اور مسلم دشمن مانتے ہیں ، صاف اور دو ٹوک پیغام دے دینا چاہئے کہ کسی بھی صورت میں اس قانون کو نافذ ہونے نہیں دیا جائیگا ۔ کیونکہ اسکے نافذ ہونے اور این آر سی کے آجانے سے پھر ہندوستان وہ ہندوستان نہیں رہیگا جسے ستر سال پہلے انگریزوں سے آزادکروایا گیا تھا ۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہندوستان کی اکثریت امن پسند اور جمہوریت کی حامی ہے ۔
اب ضرورت ہے انہیں منظم کیا جائے  اور احتجاجات اور مظاہروں کے ساتھ ساتھ signature campaign بھی شروع کیا جائے اور تمام جمہوریت پسند عوام سے اس قانون کی مخالفت کی درخواست کی جائے ۔ جسکا اثر یقینی طور پر اصحاب عدالت پر ہوگا ۔
س ہ ندوی
۱۱ جنوری ۲۰۲۰م