Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 12, 2020

کہیں الوداع نہ کہہ دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!


از/ابو ایوب۔ممبئی /صداٸے وقت۔
============================
 
دنیا ایک ناپائیدار جگہ ہے،آخرت دار قرار ہے۔یہ مسلمانوں کا ایمان ہے۔اس عارضی و ناپائیدار دنیا میں ہر جاندار کی حیات و موت کا وقت مقرر ہے،نہ اس سے پہلے اس کو موت آسکتی ہے اور نہ اس کے آنے کے بعد کسی کو مہلت ملتی ہے۔اس یقین کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے،اس دوران اگر کوئی نا مناسب حالات آتے ہیں تو ہمیں قرآن کی تعلیمات ان مع العسر یسرا کا سبق سکھلاتی ہیں۔
یقینا یہ دنیا فانی ہے، اس میں رہنے بسنے والے بھی فانی ہیں، اسی طرح مشکلات،ناکامیوں اور ندھیروں کے لئے بھی فنا ہے۔
حالات بھی بدلتے رہتے ہیں،تلک الایام نداولھا بین الناس الاٰیۃ۔آج ہمارا ملک جن حالات سے دو چار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔شہریت ترمیمی قانون CAA,NRC,NPRکی وجہ پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔متعدد ریاستوں میں مظاہرین پر پولس اور شر پسندوں نے لاٹھی،ڈنڈے بھی برسائے،جس میں زخمی ہوکر چند نوجوانوں کی موت واقع ہوگئی۔لیکن یہ آزادی کے متوالے اپنے ان مطالبات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ان مظاہرین میں اہل علم و دانش اور قانون دانوں کی ایک بڑی تعداد ہے،بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ علم و ہنر اور دانشوروں ہی کی جانب سے مظاہرہ کیا جارہا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ان کو اس کالے قانون کی سنگینی اور اس کے خطرناکی کا بہت ہی اچھے طریقہ سے اندازہ ہو چلا ہے۔ آسام میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کی اپنی حق شہریت ثابت کرنے کی لڑائی اور ان کابرا انجام ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ آج اگر ہم نے اس کی مخالفت نہیں کی اور یہ کالا قانون نافذ ہوگیا تو اس کا انجام کیا ہوگا اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔۴۱/ صدی گزرنے کے بعدموجودہ دورکے مسلمانوں میں اب وہ ایمانی حرارت موجود نہیں ہے جو قرون اولیٰ میں تھی۔بہت حد تک اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کالے قانون کی وجہ سے ناخواندہ اور پچھڑا ہوا طبقہ اپنے موروثی ایمان کی دولت کوکہیں الوداع نہ کہہ دے۔
یہ ہم سب کے لئے لمحہئ فکریہ ہے اس لئے کہملک کے باشندوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی موجود ہے جس کے لا علمی اور بھولے پن کی وجہ سے سرکاری دستاویزات اور مختلف محکموں میں ضروری تفصیلات کے اندراج میں خامیاں موجود ہیں۔ اب تک حکمرانوں کی جانب سے آنے والے بیانات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی بھی کمیونیٹی اور جماعت سے تعلق رکھنے والے کو ہندوستان میں شہریت مل جائے گی،گر چہ اس کے پاس کوئی بھی دستاویز نہ ہو،لیکن مسلمان کے پاس اگر مطلوبہ دستاویزات میں یکسانیت نہیں ہے یا آفیسر کو شبہ ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی صورت میں اس بات کا اندیشہ ہیکہ لوگ ان آزمائشوں سے نجات پانے کے لئے اسلام کو الوداع کہہ کر بد دین نہ ہو جائیں۔
یہ ایک زبر دست لمحہ فکریہ ہے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے جس کی جانب ارباب حل و عقد کو اپنی نگاہیں کرنی چاہئے۔