Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 9, 2020

ملک کے موجودہ حالات اور برسوں قبل ہندوستانی مسلم تعلقات کی جھلک۔


از/سرفراز احمد ملی القاسمی 
حیدرآباد/صداٸے وقت۔
==============================

آج ہماراپیارا ملک"بھارت" تار یخ سے جس نازک وقت سے گذررہاہے یہ کسی سے مخفی نہیں، ہرطرف ایک شورہے"آزادی، آزادی،آزادی، کیابچے کیانوجوان، کیاخواتین، کیابوڑھے،کیاہندو کیامسلمان،کیاسکھ کیاعیسائ، بس جدھر دیکھئے ایک جنون ہےایک جذبہ ہے،ایک جوش ہے،ایک عجیب و غریب وماحول ہے ہرطرف بے چینی افراتفری،راستے سےگذرئیے توایک ہی آواز،کہیں بیٹھئے تو بھی وہی آواز،بس میں، ٹرین میں، ہوٹلوں اورچوک چوراہوں پرصرف ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ وہی آواز ہے آج سے 70 سال قبل ملک کے چپے چپے میں گونج رہی تھی،1947 میں جولوگ موجود تھے ان لوگوں کاکہنا ہے کہ"اسی طرح کی بے چینی اسوقت میں لوگوں میں موجود تھی، جیسی آج ہے اورہر زبان پر یہی نعرہ تھا، ہندوستان کی آزادی کے وقت بھی یہی فضا تھی جو آج ہے،جس نے بلآخر انقلاب لاکر ہی دم لیا،آج پھر یہی جذبہ سماج کے ہرطبقے میں پایاجاتاہے،ملک کو آزاد کرانے کاجذبہ آزادی کے وقت بھی لوگوں کے دلوں میں مچل رہاتھا اور آج بھی مچل رہاہے،ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس انقلابی تحریک میں صرف مسلمان شامل ہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ حیرت انگیز طور پر دیگر مذاہب کے برادارن وطن بھی شانہ بشانہ چل رہےہیں، پرانے لوگوں کاکہناہے کہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جس مسلمانوں کے ساتھ برادرانِ وطن انتہائی جوش و خروش کے ساتھ کھڑے اوراتحاد کاپیغام دے رہے ہیں،اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب  برسوں پرانی ہے، اور یہی واحد شناخت ہے جس سے پوری دنیا میں"بھارت"جانا اورپہچانا جاتاہے،بھارت کی صدی پرانی تاریخ ہے کہ یہاں مسلمانوں کے برادان وطن نے اچھا سلوک کیا،اور ہندو مسلم تعلقات کی ایک نئی تاریخ لکھی،تاریخ میں یہ نقش ہے کہ جس وقت مسلمان ہندوستان کا حصہ نہیں تھے اس وقت بھی ہندوستان کے متعلق،مسلمانوں کاسینہ انتہائی  صاف اورکھلا ہواتھا،عہد رسالت میں بھی ہندوستان کو قدر کی نگاہ سےدیکھا جاتاتھا،معروف قلم کار علامہ مناظر احسن گیلانیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "آپ کو اس کتاب میں مشاہدات و معلومات کا ایک ایساذخیرہ ملے گا جن سے سمجھاجاسکتاہے کہ آج ہی نہیں ہمیشہ سے مسلمانوں نے سرزمین ہند اوراسکے باشندوں کو کتنی قدرو عزت کی نگاہ سے دیکھا،اس ملک کی عام مروجہ بت پرستی جو شاید سب سے زیادہ مسلمان کےلئے باعث گرانی ہوسکتی تھی،مگر حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ صحابی رسولؐ کے خاندان سے تعلق  رکھنے والے ایک مؤرخ کی وہ توجیہ خاص طورپر قابل توجہ ہے جس کا ذکر ہندوستان کی بت پرستی کے متعلق انھوں نے کیاہے،واقعہ تو یہ ہے کہ اپنی آسمانی کتاب، قرآن کے متعلق  شروع سے مسلمانوں کے اہل علم طبقے میں اس دعوے کو حسن قبول  حاصل رہا ہے کہ منجملہ دوسری زبانوں کے قرآن میں ہندی زبان کے بعض الفاظ بھی پائے جاتے ہیں،اتقان وغیرہ کتابوں میں ان ہندی الفاظ کی آپ کو فہرست بھی مل سکتی ہے"آگے کچھ سطروں کے بعد لکھتے ہیں کہ" کیا ایسی زبان جسے وہ ناپاک یاملیچھیوں کی زبان سمجھتے ہوں اسکے الفاظ  کی گنجائش اپنے مقدس قرآن میں انکادل پیدا کرسکتاتھا؟بخاری جیسی کتاب جسکادرجہ تقدس واحترام میں قرآن کے بعدہی مسلمانوں میں ماناجاتاہے،اسمیں آپ کو ایسی روایتیں مل سکتی ہیں کہ ہندوستان کی نسبت کی تصریح کے ساتھ یعنی ہندوستان کی فلاں دواکو چاہئے کہ لوگ استعمال کریں،یہ حکم انکے پیغمبر ﷺ نے اپنی امت کو دی ہے اورآثار واخبارکی عام کتابوں میں جو ذخیرہ اس باب میں پایا جاتاہے انکےلئے ایک مستقل مضمون ہی میں گنجائش نکل سکتی ہے،اس زیادہ آخرآپ کیا چاہتے ہیں کہ کعبہ کی دیوار کا جو پتھر"حجراسود"کے نام سے موسوم ہے اسکے متعلق مسلمانوں کی کتابوں میں یہ بیان  کیاگیا ہے کہ عرب میں یہ پتھر ہندوستان سے آیاتھا"حاشیہ میں اسکی وضاحت کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ"یہ نتیجہ اس بنیاد پر نکالاگیا ہے کہ جنت سے حضرت آدم علیہ السلام، ہندوستان میں سب سے پہلے اس پتھر کو اپنے ساتھ لائے اوروہاں سے عرب پہونچا"(دیکھئے ہزارسال پہلے ص 20/21)کچھ آگے ہندوستان کے بادشاہ  اورملک کے حکمرانوں کے حوالے سے لکھتےہیں کہ مسل مؤرخین نے کبھی ہندوستان اوراسکے بادشاہوں کاتذکرہ میں بخالت سے کام نہیں لیا اورانتہائ دیانت داری سے ہندوستان سے متعلق باتوں کو خصوصی اہمیت دی اوراسکو اپنی کتاب کاحصہ بنایا،جمال الدین القفطی اور انکی کتاب تاریخ الحکماء کے حوالے سے رقم طرازہیں کہ"اس کتاب میں ایک لطیفہ کاجوذکر صاحب کتاب نے کیاہےکہ دنیاکے پانچ بادشاہوں یعنی چین، ہند،ترک، ایران اورروم انکے متعلق سمجھاجاتاتھا کہ ساری دنیاکے حقیقی حکمراں بس یہی پانچوں ہیں، باقی انکے سواجوبھی ہےوہ انھیں میں سے کسی ایک کے تابع اورطفیلی ہیں،پھران عالمی سلاطین کی خصوصیتوں کو بتاتے ہوئے جمال الدین نے نقل کیا ہےکہ ہندوستان کے بادشاہ کی خصوصیت یہ سمجھتے تھےکہ وہ حکمت و دانش کا بادشاہ ہے کیوں کہ علوم وفنون کی طرف غیر معمولی اورحد سے گذری ہوئی توجہ ہند کے بادشاہوں کو ہے،واللہ اعلم بالصواب، تاریخ کے کس دور کایہ قصہ ہےیہ مجھے نہیں معلوم لیکن مجھے یہاں یہ بتاناہے کہ ہندوستان کے متعلق  مسلمانوں کا سینہ کتنا کھلاہواتھا،اسکی یہ کتنی کھلی دلیل ہے،کرہ زمین کے پانچ بادشاہوں میں ایک بادشاہ ہندوستان کاتھابھی تھا،صرف یہی نہیں بلکہ انسانیت کاسب سے بڑاامتیاز یعنی "علم"اسکی قیادت بھی اسی ملک کے حکمرانوں کوحاصل تھی،بتایاجائے کہ اعتراف فضل وکمال کی اس سے بہترشہادت اورکیاہوسکتی ہے،قفطی نے اسی کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ دنیا کی تمام پرانی قوموں نےاس پراتفاق کیا ہے کہ حکمت ودانش اورمختلف علوم و فنون میں ہندوستان کےلوگ آگے بڑھے ہوئےتھے"(دیکھئے ص 22)یہ تو اس وقت کی بات ہے جب مسلمان  ہندوستان نہیں آئے تھے،لیکن جب مسلمانوں نے اسی بھارت کو اپنا ملک اور وطن بنایا تواسکے بعدیہاں کے باشندوں نے انکاپرتپاک اسقبال کیا،مولاناگیلانیؒ کے بقول مسلمانوں کے ہندوستان پہونچنے اوراسکووطن بنالینے کے بعد،جہاں تک میں جانتاہوں ہندوؤں کے دین ومذہب کے متعلق مسلمانوں کی کوئی تنقیدی یامناظراتی کتاب نہیں پائی جاتی،یہ قصہ اس وقت شروع ہوا جب ہندوستان کی حکومت ایک ایسی قوم کے قبضے میں چلی گئی جسکی حکمرانی کی بنیاد ہی(بانٹو اورحکومت کرو)پر قائم تھی،ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ لکھتے ہیں کہ"مہاراجہ پٹیالہ کے پاس جب مسٹر جارج فریڈرک،کمشنر انبالہ بطور مہمان تشریف لائے اوربہادر گڑھ کے قلعے میں مہاراجہ نےانکواتارا(استقبال کیا)تو عین محل کے پاس ایک"مسجد"کودیکھکر کمشنر بہادر نےفرمایاکہ"اورنگ زیب تو مسجدوں کوڈھواتاتھاآپ نے اپنے محل کے پاس اس مسجد کوکیسے قائم رہنے دیا"؟مہاراجہ نے جواب میں کہا کہ جس ڈھنگ سے اس وقت آپ نے اورنگ زیب کا ذکرکیا میں نہیں چاہتاکہ میرے بعد میراذکر بھی لوگ اسی طرح کریں،"(ہزارسال پہلے)
کیایہ جواب موجودہ دریدہ دہن اور جھوٹے مکار حکومت کے منھ پرزوردار طمانچہ نہیں ہے، یہ ان لوگوں کےلئےبھی مشعل راہ ہے جس نے ستر سال تک سیکولرزم کاچوغا پہن کر فرقہ پرستی کوفروغ دیتے رہے اورآستین کے سانپ کو دودھ پلاتے رہے،آج جو ملک کے اقتدار پر فرقہ پرستوں اوردشمن انسانیت کاقبضہ ہے،جنکےجوآج ملک کی سیاہ و سفید کے مالک ہیں،ایسے  لوگوں کےلئے یہ واقعہ  کسی زوردارطمانچے سے کم نہیں،اب آئیے ایک نظر اس پربھی ڈالتے ہیں کہ برسوں قبل،اہل ہند کی مسلمانوں سےکس طرح کی عقیدت ومحبت تھی؟ اوربرادران وطن مسلمانوں کے بارے میں کیاخیال رکھتےتھے؟مولاناگیلانی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ"جن دنوں کامیں ذکرکررہاہوں،مسلمانوں کےساتھ اس ملک کے غیرمسلم باشندوں کی عقیدت کایہ حال تھاکہ جن چیزوں میں خصوصیت کے ساتھ  ہندوستان والوں کادعویٰ تھامثلا سانپ کے زہر کا ازالہ،جھاڑپھونک، جنتر منتر وغیرہ بزرگ ابن شہریارنے اپنی کتاب عجائب الہند میں کولم پلی(جنوبی ہند کاایک ساحلی شہر)کے تذکرے میں ناگ سانپ کاذکر کرنے کے بعد لکھاہے کہ کولم پلی میں ایک مسلمان ہے جسے ہندوستانی زبان میں بنجی(یعنی بانگی)کہتےہیں یہ انکی نماز سے تعلق رکھتاہے(یعنی مؤذن ہے)وہی ناگ سانپ کے زہر کاازالہ اپنے جھاڑ پھونک سے کرتاہے،پھر یہ لکھ کر کہ زہر جب مارگزیدہ کے جسم میں اچھی طرح سرایت کرجاتاہے تو اس وقت گو اس بنجی یعنی مؤذن کی جھاڑ سے نفع نہیں ہوتالیکن عام حالات میں مریض عموماً شفایاب ہوجاتا ہے،آخرمیں لکھاہے کہ گواس ملک میں بکثرت ایسے لوگ ہیں جواس خاص سانپ(الناغران)یعنی ناگ اوراسکے سوادوسرے سانپوں کے زہرکا ازالہ جھاڑ پھونک سے کرتےہیں، لیکن اس مسلمان مؤذن کا جھاڑ بہت کم خطا کرتاہے،واللہ اعلم اس واقعہ کی صحیح نوعیت کیاتھی،لیکن اس قصہ سے اتنا تو ضرور معلوم ہواکہ مسجد کے مؤذنوں تک کے متعلق اس ملک کے باشندوں کا یہ اعتقاد تھاکہ اسکا عمل انکے جھاڑنے والوں کے عمل سے زیادہ مؤثر اورمفید ہے"(ص 35)
آگےمولانا گیلانیؒ لکھتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بیان  سلیمان تاجر کاہے،مسلمانوں نے اپنے دین اوراپنے اخلاق کاکتنا وزن اہل ہند کے قلوب پر ڈال دیاتھا،سلیمان راجہ بلھراکاتذکرہ ان الفاظ میں کرنے کے بعدلکھاہے کہ راجہ بلہرا اس ملک کاسب سے بڑابادشاہ ہےاورتمام راجگان ہند اسکے فضل وشرف کو مانتےہیں،اگرچہ ہندوستان کاہرراجہ اپنے اپنے علاقے کا مستقل حکمراں ہے،لیکن بلہرا کی سیادت سبھی تسلیم کرتےہیں،یہی وجہ ہےکہ بلہرا کے سفیر جب کسی راجہ کے پاس پہونچتے ہیں وہ راجہ سفیرکے سامنے ڈنڈوت کرتےہیں،یہ عظمت کے اظہار کاطریقہ ہے،بلہرا خاندان کے راجگان کی ایک خصوصیت  یہ ہے کہ بسا اوقات پچاس پچاس سال تک ایک ایک راجہ کو حکومت کرنے کاموقع اس گدی پر مل جاتاہے،لیکن یہ موقع اور یہ برکت کس ذریعے سے حاصل ہوتی ہے اسکاتذکرہ، سلیمان راوی ان الفاظ میں کرتاہےکہ بلہرا کی حکومت والوں کا خیال ہے کہ انکی حکومت کی مدت اورانکی عمرکی درازی کاسبب یہ ہے کہ عرب سے یعنی مسلمانوں سے وہ محبت کرتےہیں، سنا آپ نے اس ملک والوں کاعقیدہ؟ چونکہ عرب یعنی مسلمانوں کےساتھ بلہرا خاندان کے راجگان محبت کرتے ہیں اسلئے اللہ انکی عمروں کو بڑھادیتاہے،یہ تھامحبوبیت کاوہ مقام جو مسلمان اپنے اخلاق کی بدولت ان ممالک میں حاصل کرلیتے تھے،جہاں وہ بے چارے صرف مسافروں اور تاجروں کی حیثیت سے پہونچتے تھے کہ نہ صرف وہی بلکہ ان کی قوم تک دوسروں کی محبوب بن جاتی تھی،اورکسی محبوب کہ خداکی ساری مہربانیوں کو اسی محبت کانتیجہ قرار دیتی تھی"(ہزارسال پہلے ص36)
اسی سلسلے میں بزرگ بن شہریار اپنی کتاب عجائب الہند میں ایک جگہ لکھاہے کہ بعض ایسی رعایتیں ان ممالک میں مسلمانوں کوحاصل تھیں،جن سے خوداس ملک کے باشندے محروم تھے،چنانچہ عجائب الہند میں ہےکہ بادشاہوں کاقاعدہ ہے کہ انکے سامنے کوئی بھی ایک خاص شکل کے ساتھ ہی بیٹھ سکتاہے،اس نشست کانام انکی اصطلاح میں برسیلا ہے،چارزانو ہوکر لوگوں کوان بادشاہوں کے سامنے بیٹھنا پڑتاہے،حتی کہ خود انکے ملک کے لوگ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں،خواہ وہ کسی درجہ کاآدمی ہو،نشست کےاس خاص طریقے کوچھوڑکر راجہ کےسامنے بیٹھنے کی اگرکوئی ہمت کرے تو سخت سزاکامستوجب ٹھیرتاہے،لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی لکھاہے کہ اس وقت تک یہ دستور چلاآرہاہے کہ ان غیر مسلم راجگان کے سامنے مسلمان جس طرح چاہیں بیٹھ سکتےہیں،لیکن مسلمانوں کے سوادوسرے مذکورہ بالا قاعدہ کے مطابق بیٹھنے پر مجبور ہیں،جس کانام برسیلا ہے،نشست کے اس خاص طریقے کے خلاف راجہ کے سامنے اگر کوئی بیٹھنے کی جرات کرے تواسے جرمانہ اداکرناپڑتاہے"(دیکھئے عجائب الہند ص196)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس زمانہ کاواقعہ یہاں وہ چوتھی صدی ہجری کاہے،404ھجری میں بزرگ بن شہریار،جو معروف سیاح ہے اپنی عجائب الہند لکھی اسی زمانے کایہ ہماراہندوستان ہے جوآج تاریخ کے انتہائی عجیب وغریب اورنازک دورسے گذررہاہے،اسی کتاب میں اوربھی بہت سارے اسطرح کے واقعات ہیں،ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ بلہرا کی حکومت میں مسلمانوں کاایک مسلمان افسر ہوتاتھا،اس کالقب "ہنرمن"تھااس ہنرمن کے متعلق ہے کہ اسلامی علاقوں میں جوحیثیت قاضی کی ہوتی ہے وہی حیثیت ہنرمن کو(بلہرا)کے علاقے میں حاصل ہے،لیکن ہنرمن  مسلمانوں کے سواکسی دوسرے طبقے سے نہیں ہوسکتا،آگے لکھتاہے کہ ہندوستانی قوانین کی روسے کسی جرم کی خواہ کچھ بھی سزا مقرر ہولیکن مسلمان جب اس جرم کےمرتکب ہوتے تھے تو انھیں ہنرمن کے سپرد کردیاجاتاتھا تاکہ وہ اسلامی قوانین کی روسے ان پرحکم لگائے"(عجائب الہند)
دیکھا آپ نے قدیم ہندوستان کی تاریخ اورمسلمانوں کے تئیں ان غیر مسلم بادشاہوں کی فراخدلی اورعدل وانصاف،شاید یہی وجہ ہے کہ اتنے طویل عرصے کےبعد بھی اسکی شناخت برقرار ہےجسکی ختم کرنے کی جدوجہد موجودہ حکومت کررہی ہے،لیکن یہ مٹھی بھرلوگ ہرگزاس میں کامیاب نہیں ہوسکتے،ہماراملک ایک انقلابی دورسے گذررہاہے اورانشاء اللہ اس ملک میں انقلاب آکر رہےگا،کیونکہ اس جدوجہد اورفیصلہ کن لڑائی میں برادران وطن شریک ہیں،حیرت انگیز طور پریہ آواز بعض گوشوں سے اٹھ رہی ہےکہ "ہم اس ملک سے مسلمانوں کو ہرگزجانے نہیں دیں گے"اور کہیں یہ بھی کہ"اگرمسلمانوں کے ساتھ اس بھارت میں بھی کسی طرح کابھید بھاؤ کیاگیا تومیں مسلمان ہوجاؤں گا"وغیرہ وغیرہ  یہ علامت ہے اس بات کی کہ برسوں پرانی یادیں اورقدیم تہذیبیں ابھی اس ملک میں زندہ ہے اسلئے اتناآسان نہیں ہے اس ملک کو ایک بارپھر غلام بنالینا،مسلمانوں نے تویہ طے کرلیاہے ہمیں ہندوستان میں اپنے ہرقسم کی آزادی کے ساتھ اس ملک میں رہناہے،یہی ہماراآخری ٹھکانا ہے،شاید یہ موجودہ تحریک دنیاکی انوکھی اورمثالی تحریک ہے جس میں 6ماہ کے دودھ پیتے بچے سے لیکر 90سال کے بوڑھے تک بغیرکسی امتیازکے شریک ہیں، پڑھے لکھے اورجاہل تمام لوگوں کابس ایک ہی نعرہ ہے آزادی، آزادی،آزادی ضرورت ہے کہ اسکومنظم اوراسکی رفتار کوتیزکیاجائےپھر دیکھئے انقلاب کی صبح کیسے ہوتی ہے؟


برائے رابطہ 8801929100
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com