Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 9, 2020

جے این یو کے مجرم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلی قسط۔



ایم ودود ساجد/صداٸے وقت۔
===============================

دہلی کی جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کا قضیہ تو آپ کو معلوم ہوگا ہی۔۔۔ گزشتہ 5 جنوری کو وہاں جن 50-60 نقاب پوش غنڈوں نے پُرامن طلبہ پر قیامت برپا کی تھی ان میں سے ابھی تک ایک بھی پولس کے ہاتھ نہیں لگا۔۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ جو CCTV کیمرے ایک ہزارایکڑ کے رقبہ پر پھیلی ہوئی اس یونیورسٹی میں لگے ہوئے ہیں ان میں سے سنا ہے کہ ایک کیمرے میں بھی وہ فوٹیج باقی نہیں ہیں جن سے ان نقاب پوش غنڈوں کے بارے میں کچھ علم ہوسکتا تھا۔۔۔

یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں آپ کومختلف نیوز چینلوں‘اخبارات اور یوٹیوب وغیرہ پر موجود سینکڑوں ویڈیوز سے پتہ چل ہی گیا ہوگا۔۔۔ لیکن ایک سوال  ایسا ہے کہ جس کے بارے میں کوئی سوچ ہی نہیں رہا ہے۔۔۔ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو تمام گُتھیاں سلجھ سکتی ہیں۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ یہ سب ہوا کیسے؟اس کا جواب پانے کے لئے تھوڑی سی تفصیل کا مطالعہ ضروری ہے۔۔۔ فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل ' جی ڈی بخشی ہیں۔۔۔وہ ایک عرصہ سے ٹی وی مباحثوں میں آتے رہے ہیں۔۔۔ ان کے سامنے جب ملک کی اقلیتوں‘بایاں بازو‘جے این یو‘سیکولرزم وغیرہ جیسے عناصر کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے غیض وغضب کی انتہا نہیں رہتی۔۔۔ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔۔۔۔ وہ جب آنکھیں نکال کر اور دانت پیس پیس کر بولتے ہیں تو ان کے منہ سے جھاگ نکلتے ہیں ۔۔۔ وہ یونیورسٹیوں میں اظہار رائے کی آزادی کے حق میں نہیں ہیں۔۔۔

2014 کے لوک سبھا الیکشن کے بعد یونیورسٹیوں میں ان کی بڑی پزیرائی ہونے لگی۔۔۔۔انہوں نے پچھلے برس آئی آئی ٹی مدراس میں مہمان کے طورپر جب تقریر کی تو وہاں کے دو اسٹوڈینٹس نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک سخت خط لکھا۔۔۔اسٹوڈنٹ ابھینو سوریہ نے وائس چانسلر کو جو لکھا اس کی بس ایک سطر کا مطالعہ ہی معاملہ کو سمجھنے کے لئے کافی ہوگا۔۔۔۔ اس نے لکھا کہ میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک ایسے شخص کو یونیورسٹی کا اتنا اہم پلیٹ فارم کیوں دیا گیا جو بولتا ہے تو زہر اگلتا ہے اور جس کے خیالات طلبہ کو آپس میں ہی بھڑانے والے ہیں۔۔۔اس نے مزید لکھا کہ جنرل بخشی نے ایسی تقریر کی کہ جو غیر انسانی رویہ اور تشدد پر فخر ومباہات اور  دشمنی کے زہر سے بھری ہوئی تھی۔۔۔

اب آئیے مدراس سے واپس آجاتے ہیں۔۔۔انہی جنرل جی ڈی بخشی کی پزیرائی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بھی ہونے لگی۔۔۔۔ ان کے دورے بڑھ گئے اور وہ اظہار رائے کی آزادی کے ’غلط‘استعمال پر لیکچرس دینے لگے۔۔۔۔ وہ یہاں کے طلبہ کے اندر 'وطن سے محبت کے جذبات' بیدار کرنے کی ضرورت پر زور دینے لگے۔۔۔ بات کچھ اور آگے بڑھی تو اچانک ایک روز خبر آئی کہ جے این یو کی انٹرنل سیکیورٹی کا ٹھیکہ جنرل جی ڈی بخشی کو دیدیا گیا ہے۔۔۔اس پر کافی اعتراضات ہوئے۔۔۔۔ اسٹوڈینٹس نے انتظامیہ سے سوال جواب کئے۔۔۔۔ انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی کہ ریٹائرڈ فوجیوں کو سیکیورٹی پر مامور کرنے کے پس پشت کوئی چھپا ہوا ایجنڈہ نہیں ہے۔۔۔

 ستمبر 2019 میں جے این یو انتظامیہ نے اپنے ان 500 سیکیورٹی گارڈز کو‘جو پچھلے 10سال سے وہاں سیکیورٹی پر مامور تھے یہ زبانی  فرمان سنادیا کہ کل سے آپ کو کام پر نہیں آنا ہے۔۔۔۔ان کی جگہ یونیورسٹی نے ریٹائرڈ فوجیوں کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم AWPO کو ٹھیکہ دیدیا گیا جس کے 270 ریٹائرڈ فوجی آج کل جے این یو کی سیکیورٹی پر مامور ہیں۔ ۔۔ یہ راندہ درگاہ 500 گارڈز آج بھی عدلیہ سے انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔۔۔ بے چارے کتنے بھولے ہیں ۔۔۔۔ 

جے این یو کے بارے میں آپ یہ جان ہی چکے ہوں گے کہ وہاں کوئی بھی غیر مطلوب شخص سیکیورٹی چیک کے بغیر داخل ہی نہیں ہوسکتا۔۔۔یہاں تک کہ طالب علم بھی اور اساتذہ بھی اپنا آئی ڈی کارڈ دکھائے بغیر اندر نہیں جاسکتے۔۔۔۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دن کے اجالے میں یہ 50-60 نقاب پوش غنڈے کیسے داخل ہوگئے جن کے ہاتھوں میں دھار دار ہتھیاراور لاٹھی ڈنڈے تھے؟ آخر انہیں محفوظ راہداری دینے کا بنیادی ذمہ دار کون ہے؟ کیا فوج سے ریٹائرڈ یہ 270 فوجی ذمہ دار نہیں ہیں جن کو رکھنے کے لئے دس سال سے سیکیورٹی پر مامور 500 لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا؟ پھر ایسی سیکیورٹی کس کام کی جس کے ہوتے ہوئے ہتھیار بند غنڈے تو اندر گھس جائیں اور بے قصور اور پُر امن طلبہ کا تحفظ نہ کیا جاسکے؟ یہ وہ سوال ہے جسے کوئی نہیں پوچھ رہا ہے۔۔۔ 

جے این یو کے وائس چانسلر پروفیسر جگدیش کمار کا چہرہ شاید یونیورسٹی کے تمام طلبہ پہچانتے بھی نہ ہوں۔۔کیونکہ وہ کبھی کسی سے ملتے ہی نہیں۔۔وہ میڈیا کے سامنے بھی نہیں آتے۔۔حالانکہ وہ یونیورسٹی کے احاطے میں ہی مقیم رہتے ہیں۔۔۔وہ جب سے یونیورسٹی میں آئے ہیں طلبہ مسلسل پریشان ہیں۔۔لہذا پچھلے دنوں انہوں نے یونیورسٹی کی فیس میں اضافہ کرکے طلبہ کو بے چین کردیا۔۔۔جے این یو ان بہت کم یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جہاں ملک بھر کے غریب اور کمزورطبقات کے ذہین نوجوانوں کو بہت کم فیس پر اعلی تعلیم ملتی ہے۔۔۔یہاں کے فارغین میں بڑے بڑے سیاسی نام بھی ہیں۔بائیں بازو کے سیتا رام یچوری اور دائیں بازو کے ایس جے شنکر (وزیر خارجہ) اور نرملا سیتارمن (وزیر خزانہ) بھی یہاں کے اسٹوڈنٹ رہ چکے ہیں۔۔۔

جے این یو کی روایت رہی ہے کہ یہاں طلبہ مختلف قومی مسائل پر اپنا موقف طے کرتے ہیں اور کیمپس کے اندر ان مسائل پر صحتمند بحث کرتے ہیں۔۔۔ اس عمل میں اساتذہ بھی شامل ہوتے ہیں ۔۔۔ ایسا مثالی' پر امن اور علم دوست ماحول شاید ملک کی کسی اور یونیورسٹی میں پایا جاتا ہو۔۔۔ طلبہ مختلف اشوز پر جو موقف اختیار کرتے ہیں اس کا ملک کی مجموعی سیاست پر اثر بھی پڑتا ہے۔۔۔ یہاں کے ماحول کا اثر ملک کے نوجوان بھی قبول کرتے ہیں اور پھر وہ اپنے حکمرانوں سے سوال بھی کرتے ہیں ۔۔۔ بس یہی نکتہ موجودہ حکمرانوں کے لئے سوہان روح ہے۔۔۔ 

جے این یو کی اسی روایت اور اسی انفرادیت کو موجودہ حکمراں ختم کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ پروفیسر جگدیش کمار جیسے آدم بیزار' خود سر اور متعصب وائس چانسلر' سیکولرزم اور گنگا جمنی تہذیب کے دشمن جنرل جی ڈی بخشی جیسوں کے ساتھ مل کر اس نشانہ کو حاصل کرنے کے لئے سرگرداں ہیں ۔۔۔ ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہورہا ہے۔۔۔ وہ اپنے دہشت زدہ زخمی طلبہ سے ملے تک نہیں ۔۔۔ میڈیا کا سامنا نہیں کیا۔۔۔ یہاں تک کہ وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی اس واضح ہدایت کو بھی جوتوں تلے روند دیا کہ یا تو احتجاجی طلبہ کے تئیں اپنا رویہ بدلیں یا اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیدیں۔۔۔۔ کیا کوئی وائس چانسلر کسی "بڑے" کی پشت پناہی کے بغیر ایسی جرات در جرات کرسکتا ہے۔۔۔۔؟
(جاری)۔۔۔۔۔۔۔۔۔