Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 9, 2020

یوروپ میں نہانے کو کفر سمجھا جاتا تھا۔۔۔ایک دلچسپ حکایت۔

صداٸے وقت/ منقول۔
============================
*ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺑﺪﺑﻮ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ ! ﺭﻭﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻗﯿﺼﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻟﻮﺋﯿﺲ ﭼﮩﺎﺭﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﮔﺌﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮮ ﻧﮯ لکھﺎ کہ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻧﺪﮮ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺘﻌﻔﻦ ﮨﮯ "،*
*ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ "ﻣﻮﻧﭩﯿﺎﺳﺒﺎﻡ" ﺗﮭﺎﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺗﮭﯽ ۔*
*ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﺭﻭﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ،*
*ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺳﯿﺎﺡ ﺍﺑﻦ ﻓﻀﻼﻥ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﻭﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻗﯿﺼﺮ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯽ ﮐﮭﮍﮮ ﮐﮭﮍﮮ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﺤﻞ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﮐﺮﺗﺎ، ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﺘﻨﺠﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﺍﯾﺴﯽ ﮔﻨﺪﯼ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﯿﮟ نے ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ " ۔*
*ﺍﻧﺪﻟﺲ ﻣﯿﮟ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻠﮑﮧ " ﺍﯾﺰﺍﺑﯿﻼ" ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﻧﮩﺎﺋﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﻤﺎﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﺮﺍ ﺩﯾﺎ ۔*
 *ﺍﺳﭙﯿﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ " ﻓﻠﭗ ﺩﻭﻡ " ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﻟﮕﺎ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ* ،
*ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﯾﺰﺍﺑﯿﻞ ﺩﻭﺋﻢ ﻧﮯ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ تک ﺩﺍﺧﻠﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮونگی ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﺳﺎﻝ ﻟﮕﮯ۔*
*ﯾﮧ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ مغرب کے ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﯿﮟ،*
 
*ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﯿﺎﺡ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ،* 
*ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﻧﻈﺎﻡ ﺷﻤﺴﯽ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔*

 *ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮔﻨﺎﮦ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮواﺗﮯ ﺗﮭﮯ،* 

*ﺟﺐ ﻟﻨﺪﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺮﺱ ﮐﯽ ﺁﺑﺎﺩﯾﺎﮞ 30 ﺍﻭﺭ 40 ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺁﺑﺎﺩﯾﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﻠﯿﻦ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ،*
*ﻓﺮﻧﭻ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭجہ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﭘﯿﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﻨﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔*
*ﺭﯾﮉ ﺍنڈینز جب اہل ﯾﻮﺭپ ﺳﮯ ﻟﮍﺗﮯ ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﻮﻧﺲ لیتے ﺗﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ اہل ﯾﻮﺭپ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮ ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ!!*
*ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯽ ﻣﻮﺭﺥ " ﺩﺭﯾﺒﺎﺭ " ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ*
 *":ﮨﻢ ﯾﻮﺭﭖ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﮨﯿﮟ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﮈﮬﻨﮓ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﻧﮩﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﺒﺎﺱ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ، ﺟﺐ ﮨﻢ ﻧﻨﮕﮯ ﺩﮬﮍﻧﮕﮯ ﮨﻮﺗﮯ تھے، ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﮐﻮ ﺯﻣﺮﺩ، ﯾﺎﻗﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﺐ ﯾﻮﺭﭘﯽ ﮐﻠﯿﺴﺎ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﻔﺮ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺻﺮﻑ ﻗﺮﻃﺒﮧ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ 300 ﻋﻮﺍﻣﯽ ﺣﻤﺎﻡ ﺗﮭﮯ*

*"پھر وقت پلٹا اور ہم سے ہماری سائنس، ہمارا علم ہماری ترقی کے راز لے گیا .*
*ہمیں بدلے میں احساس کمتری دے دی ،ہمیں فیشن نامی لفظ کے ساتھ بے ہودگی دے دی، ہمین ماڈرن بنانے کے نام پر بے حیائی دے دی، ہم نے ان کی دی ہر اس چیز کا ویلکم کیا جس سے ہم بری طرح تباہ ہو سکتے تھے۔*
 *انہوں نے ہمیں آزادی کا نام اور ساتھ غلط تعبیریں دے دیں* 
*ہم نے اپنے نصابوں میں بغاوت کے اصولوں کو آزادی کے اصول قرار دے کر پڑھانا شروع کر دیا .*
**پھر ایسا ہوا کہ ہم نے عیاشی کو کامیاب زندگی سمجھنا شروع کر دیا*
*پھر ایسا ہوا کہ وہ چاند پر جا رہے تھے ہم تفرقہ پرستی پر بحث کر رہے ہیں.*
*وہ مریخ کا سفر کر رہے ہیں ہم 1300 سال پہلے صحابہ کے مسلمان ہونے نہ ہونے پر بحث کر رہے ہیں.*
*انہوں نے سمندر میں پٹرول کے ذخائر بنانے شروع کر دئیے ہم نے پٹرول سے جلاو گھیراو آگ لگاو تحریکیں چلانا شروع کردی .*
*انہون نے ادب میں ایسے شاہکار تخلیق کرنے شروع کیے جو افکار بدل دیں تو ہم نے۔۔۔۔*
*لب و رخسار*
 *چائے کی پیالی*
 *کالج کی لڑکی لکھنا*
 *۔۔۔۔۔شروع کر دیا .*

*انہوں نے قرآن کو اپنی لیبارٹریز کا حصہ بنا لیا اور ہم نے اچھے قیمتی غلاف بنانا شروع کر دیے اور طاق کی سجاوٹ کے مقابلے شروع کر دئیے.*

 *انہوں نے عمر فاروق کی سادگی اپنا لی اور ہم نے عیاشی اپنا لی.* 

*جب وہ اپنے بچوں کو زندگی کی حقیقت سکھا رہے ہیں ہم سکول ،کالج اور یونیورسیٹیز میں فرسٹ، سکینڈ اور تھرڈ پوزیشن لینے کے گر بتا رہے ہیں ۔*

*اہل دانش سمجھتے ہیں کہ۔۔۔*
*آٸندہ جنگیں میدان جنگ میں نہیں کلاس رومز میں لڑی جائینگی ۔* 
*اور آج ہم نٸی نسلوں کو مادیت پرستی کی بھٹی میں جھونک کر پیسے کو ترقی اور کامیابی کا استعارہ قرار دے رہے ہیں۔*
 *وہ اپنے بچوں کو جینا بتا رہے ہیں اور ہم ایک دوسرے سے جیتنا سکھا رہے ہیں.* 
 
*انہوں نے اپنی بے حیاٸی اور خواہشات کے سامان کو کم کر کے ویلنٹائن ڈے میں جمع کر دیا اور ہم نے اس کو منانے کے لیے روشن خیالی کا نیا نعرہ لگا دیا ۔* 

*جب وہ شکیسپئیر اور گوٸٹے کے کلام کو الہامی ، روحانی کلام ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں عین اسی وقت ہم اقبال کو مشکل قرار دے کر اپنی نسل کو تن آسان بنا رہے ہیں ۔*

*یہ ہے وقت کا پلٹا جو ہمیں خدا نے نہیں دیا۔*
*خدا بھی وہی ہے زمانہ بھی وہی ہے مگر معیار بدل گئے ہیں۔* 

*اگر کوئی مجھ سے ان حالات کی وجہ پوچھے تو میں اسے علامہ اقبال کی بارگاہ میں لے جاوں اور کہوں شکوہ ، جواب شکوہ پڑھیں.*
*ساری بات سمجھ آجائیگی نصاب کا حصہ بنا لیں آنے والی نسلیں ضائع ہونے سے بچ جائیں گیں۔