Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 5, 2020

گودھرا کی سابر متی ایکسپریس سے جے این یو کے سابر متی ہاسٹل تک۔


از/ ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
==============================
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرز پر جے این یو  میں  ہونے والے حملے کا الزام   بھی  بی جے پی کی پروردہ  اے بی وی پی کے غنڈوں پر لگا یا جارہاہے ۔ حملہ آوروں نے  سابرمتی ہاسٹل میں گھس کر طلباء و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔ سوئے اتفاق سے گودھرا میں جس ٹرین کی  آگ کا بہانہ بناکر سارے گجرات کو نذرِ آتش کیا گیا  تھااس کا نام بھی سابرمتی ایکسپریس تھا ۔  عینی شاہدین کے مطابق  جے این یو میں پچاس سے زیادہ نقاب پوش حملہ آوروں نے  ڈنڈوں  اور لاٹھیوں کے ساتھ   داخل ہوکر طلباء کو زدوکوب کیا۔ یونین کی صدر آئشی گھوش  سمیت 15 زخمی طلبہ کو سات ایمبولینس میں ایمس لے جانا پڑا۔  حملے کے دوران جے این یو طلباء یونین کے صدر   ویڈیو  میں  یہ کہتی  ہوئی نظر آئیں کہ ’’مجھ پر سفاکانہ انداز میں حملہ کیا گیا ہے۔ حملہ آور نقاب پوش تھے۔ دیکھو خون کیسے نکل رہا ہے۔ مجھے بری طرح نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘
یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال ملک کی وزیر خزانہ  نرملا سیتا رامن  اور وزیر خارجہ جئے شنکر  جے این یو کےطلباء ہیں۔ ان دونوں کو فوراً  جے این یو جانا چاہیے تھا  یا کم ازکم ایمس جاکر زخمیوں سے ملاقات کرنی چاہیے تھی مگر  افسوس  کہ مودی اور شاہ کی ناراضگی کے ڈر سے یہ بیچارے  ایسا نہیں کرسکے۔  سیتا رامن نے ٹویٹ کیا ’’جے این یو سے بھیانک تصاویر ، وہ مقام  جس کو میں جانتی اور یاد کرتی ہوں، جہاں گرماگرم بحث تو ہوتی تھی لیکن کبھی بھی تشدد نہیں ہوتا تھا ۔ میں اس کی مذمت کرتی ہوں ۔ قطع نظر کے پچھلے دنوں کیا ہوا یہ حکومت   یونیورسٹی اور کالجوں کو تمام  طلباء کے لیے محفوظ  مقام بنانا چاہتی ہے۔ یہ بیان وزیر خزانہ کے دینے کا نہیں ہے اس لیے کہ نظم و ضبط  قائم کرنا وزیر داخلہ کی ذمہ داری ہے،  لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا کرتے تو ایسا سانحہ رونما ہی نہیں ہوتا ۔ بی جے پی  جس طرح غنڈوں کی پشت پناہی کررہی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ یہ آگ بنارس ہندو یونیورسٹی سے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی پہنچی اور اب جامعہ سے ہوتے ہوئے جے این یو پہنچ گئی ہے۔ اس کی تپش اب سارے ہندوستان میں محسوس کی جائے گی۔
وزیر خارجہ نے بھی اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’’ جو کچھ جے این یو میں ہورہا ہے میں اس کی تصاویر دیکھ رہا ہوں ۔ میں تشدد کی مذمت کرتا ہوں ۔ یہ یونیورسٹی کی تہذیب و روایت کے پوری طرح خلاف ہے ‘‘ ۔ جئے شنکر کی بات درست ہے کہ یہ اس تہذیب و روایت کے خلاف جس  میں  انہوں نے  تعلیم حاصل کی تھی۔ اب زمانہ بدل گیا۔ ملک تیزی کے ساتھ ہندو راشٹر بن رہا ہے اور ملک کے تابناک مستقبل کی یہ تصاویر ہیں جو قبل از وقت سامنے آرہی ہیں ۔’ یہ تو بس ایک جھانکی ہے پوری پکچر باقی ہے‘۔  حیرت کی بات یہ  ہے کہ جن تصاویر کو دیکھ کر وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ  پریشان ہیں ان کو وزیر اعظم نہیں دیکھ رہے ہیں یا اگر دیکھ بھی رہے ہیں تو مونی بابا بنے  اپنے اضطرار  کا اظہار نہیں کررہے ہیں۔ وہ  کم ازکم  اپنے پرانے  مگر مچھ کے آنسو بہا تے ہوئے  کہہ سکتے تھے ’ مارنا ہے تو مجھے مارو مگر ان بے قصور طلباء کو بخش دو‘۔ لیکن شاید  آگے چل کر جن کو دہشت گرد قرار دینا ہے ان سے ہمدردی کا اظہار کرکے اپنے بھکتوں کو ناراض کرنے کا خطرہ وہ مول لینا نہیں چاہتے۔  
راہل گاندھی نے اس بزدلانہ حملے کو  فسطائیت  کا شاخسانہ  قرار دیا تو چدمبرم نے پولس کمشنر کو کٹہرے میں کھڑا کیا ۔ یچوری نے بی جے پی اور آرایس ایس کے خلاف کمر کسی تو کیجریوال نے   امن کی دہائی دی ۔ اکھلیش یادو نے اعلی سطح کی عدالتی تفتیش کا مطالبہ کیا  یہی مطالبہ بی جے پی کے ترجمان نے بھی کیا لیکن اس تفتیش  کا کیا  نتیجہ کیا ہوگااس کا اندازہ ان کے بیان کی تفصیل  سے لگایا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نلن کوہلی نے کہا ہر قسم کا تشدد قابلِ مذمت ہے مگر  لیکن یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جے این یو میں ایسی ذہنیت کے حامل  طلباء  موجود ہیں جو ملک کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں اور سپریم کورٹ کے ذریعہ دہشت گرد کو دی جانے والی  سزا کو قتل گردانتے ہیں ۔ ان کو عام طور پر ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘ کہا جاتا ہے۔  ظاہر ہے ان کے نظریہ کو امن کا علمبردار نہیں کہا جاسکتا۔    اس بات کی تفتیش ہونی چاہیے کہ ان لوگوں کا تشدد کی تہذیب  کے فروغ اور اس واقعہ میں کیا  کردار ہے؟ 
 وزیر داخلہ امیت  نے اس تشدد کی مذمت کرنے کے بجائے پولس افسران کو تفتیش کرنے کی تلقین پر اکتفاء  کیا ہے۔ اس تفتیش کا متوقع رپورٹ ملک جانتا ہے۔ ممکن ہے  یہ بتایا جائے   کہ جس طرح جامعہ میں تشدد کرنے والے بنگلا دیشی تھے اسی طرح جے این یو کے حملہ آور نیپال سے آئے تھے اس لیے کہ وہاں اشتراکیوں کی حکومت ہے۔ ان کا مقصد اے بی وی پی کو نشانہ بنانا تھا مگر غلطی سے انہوں نے  اپنے ہی لوگوں پر    حملہ کردیا ۔   بعید نہیں کہ ان کی ناراضگی کی وجہ یہ بتائی جائے  چونکہ نیپال کو سی اے اے میں شامل نہیں کیا گیا ہے اس لیے وہ ناراض ہیں ۔  اس طرح کی اوٹ پٹانگ بات کوئی ذی شعور  حکومت نہیں کہہ سکتی مگر ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ اور گودی میڈیا کے چلتے تو ’کچھ بھی ناممکن نہیں ہے‘۔
قومی انتخاب میں  عوام نےوزیر اعظم  نریندر مودی  کے نعرہ ’’یہ مودی کا ہندوستان ہے ، گھر میں گھس کر ماریں گے ‘‘ کو سنا تو ایسے خوش ہوئے کہ انہیں  دوبارہ چوکیدار  بنا دیا ۔ اب چوکیدار ی کا یہ عالم ہے کہ  گھر کے اندر گھس کر غنڈے مکان مالکین کو مار ر ہے ہیں اور  پردھان سیوک  کمبھ کرن کی نیند سورہا ہےورنہ دارالخلافہ کے اندر  جامعہ کے بعد جے این یو میں یہ تشدد کے واقعات  رونما نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم  نےچونکہ مظاہرین کو لباس سے پہچان لینے کی دھمکی دی تھی اس لیے حملہ آور نقاب اوڑھ کر آئے حالانکہ انہیں اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنے ماتھے پر تلک سجا کر  آتے تب بھی ان کا بال بیکا نہیں ہوتاکیونکہ  یوگی جی  اگر انتقام لے سکتے ہیں تو مودی جی   کیوں  نہیں لےسکتے ؟ یوگی  پر الزام لگایا جارہا ہے کہ انہوں نےاترپردیش کو گجرات بنادیا لیکن شاہ جی نے تو دہلی کو  احمدآباد میں تبدیل کردیا  ۔  ویسے حقیقت یہ ہے کہ  زعفرانی  غنڈہ عناصر ےخود اپنی ہی قبر کھودرہے ہیں  ۔ بہت جلد دہلی کا انتخاب ہارنے کے بعد کفِ افسوس ملتے ہوئے بی جے پی کو  یہ کہنا پڑے گا  ؎’
"اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘۔