Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 2, 2020

...................اور برہمنوں کی سازش جناح کے ہاتھوں کامیاب ہوگٸی۔!!

از/ابو اشعر فہیم /صداٸے وقت۔
======================
تنگ نظر بنیا، برہمن اور پنڈتوں کی
کٹّرتا نے جناح کو الگ ملک کی مانگ پر مجبور کیا تھا، اس وقت مولانا آزاد اور ان کے ہم خیالوں کی ایک نہ سنی گئ اور ہندو بنیاؤں اور برہمنوں کی سازش جناح کے ہاتھوں کا میاب ہوگئ،

سوچیے ایک ملّت دو جگہ اور پھر تین جگہ بٹ گئ اور اس پر بھی خوشی کے جام لنڈھائے جارہے ہیں، اہل انصاف اور تاریخ کے طالب علم جناح کو "مجبور " اور مخلص مانتے ہیں _جس طرح تین طلاق بل، دفعہ ۳۷۰، بابری مسجد کا فیصلہ اور CAA اور NRCجبرا اور تکبّرا تھوپی جارہی ہے ویسے جبری طور پر تقسیم تھوپ دی گئ تھی اور ایک تیر سے کئی شکار کھیلے گئے تھے _
اس وقت پاکستان کے پلان میں پلائن اور ہجرت کی کوئی بات نہیں تھی، جس طرح سے یہاں سے بے یارو و مددگار خالی ہاتھ مسلمان   گئے، ادھر سے اسی طرح لٹے پٹے ہندو ہندوستان آئے اور یہاں پورے بھارت میں رچ بس گئے، بھارت میں وہ لوگ مہاجر یا شر نارتھی نہیں کہلائے، خود ہمارے شہر میں پوری "سندھی کالونی " شہر کی سب سے مرکزی اور قیمتی جگہ پر آباد ہے اور کوئی انہیں پاکستانی نہیں سمجھتا،
ہندوستان سے مسلمان گئے تھے آئے نہیں تھے، وہ مولانا آزاد کے کہنے اور ہندوستان اور اپنے آباء اجداد کی سرزمین کی محبت میں رک گئے تھے، سارے جا بھی نہیں سکتے تھے، مولانا آزاد کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی اور 1971 میں مشرقی پاکستان ٹوٹ کر الگ بنگلہ دیش بن گیا، پچھلے ستر سالوں میں آرایس ایس کو کوئی کام سوجھائی نہیں دیتا تو کم سے کم وہ اندرا گاندھی کو اسی کا کل کریڈیٹ تو دے دے، یا کم سے کم اس کو کام ہی سمجھ لے،
ابھی مولانا آزاد کی پیشن گوئی کے مطابق بلوچستان کو بھی الگ ہونا ہے یہ الگ بات ہے کہ آگے حالات کیا ہوں انہوں نےاس پر بھی صرف اندیشے کا اظہار کیا تھا، کانگریس اگر اپنے اصولوں اور سیکولرازم پر چلی ہوتی تو گاندھی جی کے قاتلین کے وارثین اور گوڈسے زندہ آباد کے نعرےبھارتی پارلیامنٹ میں نہ لگتے، لیکن کانگریس کی منافقت و منافرت نے یہ دن بھی دکھادیا _
 پاکستان کی جاسوسیاں بھی یہی کرتے ہیں اور پاکستان زندہ آباد کے نعرے بھی یہی بھگوا کارندے اور ان کے ایجنٹ ہی لگاتے ہیں، اگر یہاں کے مسلمانوں کو پاکستان جانا ہوتا تو وہ آزادی اور تقسیم کے وقت ہی چلے جاتے جب کہ جانے کا کھلا آپشن بھی موجود تھا، لیکن انہوں نے اپنی جنم بھومی میں ہی جینا اور مرنا پسند کیا، ہندو مسلم اور دلتوں کی یکجہتی کے گاندھیائی نعرے نے اور ذات پات اور ہندوانہ اونچ نیچ پر تنقید نے گاندھی جی کی جان تک لے لی، جو فکر و خیال اور مانسکتا گاندھی جی کی "ہتّیا " کر سکتی ہے وہ کسی بھی ناگرک کو خصوصا مسلم اوردلت کو جان سے مارنا تو پُنَّہ اور ثواب ہی سمجھتی ہے،
لیکن یہ جھوٹ اور فریب کا اندھیرا جلد ہی چھٹ جائے گا اور سچ اور سچّائی کا سویرا جلد ہی پوری آن بان اور شان سے آئے گا اور گاندھی، نہرو اور آزاد کا بھارت پھر سے جگمگائے گا _
ان شاء اللہ

ابو اشعر فھیم