Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 2, 2020

درد دل کے واسطے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ممبرا سے ایک رپورٹ۔!


از/ام ہشام  /صداٸے وقت ۔
==============================
ہم سبھی نے اپنے اپنے زعم کے مطابق اپنے لئے نیکیوں کے دائرے کھینچ رکھے ہیں۔جس کی پیمائش کبھی اس کے متعین نصف قطر سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوتی۔اور جن کاموں کو ہم نے نیکیاں سمجھ رکھا ہے ہم صرف وہی کام کرتے ہیں۔ایک مسلمان کی سبھی اچھائیاں اور اس کی رحم دلی،خدا ترسی،سخاوت صرف اس کے اہل و عیال رشتے داروں تک ہی اگر محدود رہ جائے تو پھر یہ کیسی نیکی؟ ایمان محض خود کو اور اپنے قریبی لوگوں کو نیک بنا لینے کا نام نہیں ہے،ایمان محض ایمانیات پر یقین رکھنے کا نام نہیں ہے، ایمان تو جب مکمل ہوگا  جب ہمارے معاملات اور ہماری معاشرت اس سانچے میں ڈھلے گی جسے نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لئے تیار کیا اور سب سے پہلے خود اس سانچہ میں ڈھل کر دکھایا۔آپ ﷺ سراپا خیر ہی خیر تھے اپنوں کے لئے، غیروں کے لئے بھی،مسافروں کا اور مہمانوں کا خاص خیال رکھنے والے تھے، اپنوں کے لئے فیاض ہونا اور دوسروں کے لئے سرد مہری اختیار کر لینا یہ کوئی کمال نہیں ہے۔کمال تو تب ہے جب انسان کی ساری خوبیاں دوسرے لوگوں پر بھی اثر انداز ہوں اور انجانے اور اجنبی بھی اس سے فیضیاب ہوں۔

ہر دور میں ایسے لوگ ضرور بہ ضرور پائے جاتے ہیں جن میں نبوی اخلاق و کردار کی جھلک ہوتی ہے۔جن کا زاویہئ نظر عام لوگوں کی سطح سے کہیں اونچا ہوتا ہے،وہ زندگی کو نفع و نقصان کی حیثیت سے نہیں دیکھتے بلکہ اسے رب کی رضا کے ترازو میں تول کر اپنا حصہ لگا لیتے ہیں۔گر چہ یہ لوگ تعداد میں بہت کم ہیں،لیکن نا پید نہیں ہوتے۔

اچھے مسلمان کی پہچان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مہمان نواز ہوتے ہیں۔اور مہمان نوازی دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ اسے دین اور ایمان کا حصہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ممبرا کوسہ بھی ایک ایسی جگہ ہے جہاں بیک وقت سارا شہر اذان کی روح پرور صداؤں سے گونج اٹھتا ہے یہاں اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں نے عملی طور پر کچھ ایسا کر دکھایا جس میں ضیافت،رحم دلی، یکجہتی کی اعلیٰ ترین مثالیں دیکھنے کو ملیں۔
ممبرا کی پر امن احتجاجی مظاہرہ کی طرح اہل ممبرا ہر رفاہی کام میں پیش پیش ہیں۔مولانا ابو الکلام آزاد اسٹیڈیم میں امسال مہاراشٹر کے لئے آرمی اکیڈمک بھرتیاں لی گئیں۔مہاراشٹر کے مختلف علاقوں سے کئی نوجوان طلباء اپنے داخلہ کے لئے یہاں آئے ہوئے تھے۔کم و بیش روزانہ پانچ سو سے چھ سو طلباء کو بیک وقت اسٹیڈیم کے اندر داخل کیا جاتا اور پھر ان کا اہلیتی ٹیسٹ لے کر انہیں منتخب کیا جاتا ہے۔کہنا مقصود یہ ہے کہ ممبئی سے باہر کے طلباء یہاں تو آگئے تھے لیکن ان کے قیام و طعام کا مسئلہ ایک بڑی مشکل کے روپ میں کھڑا تھا۔جس کے لئے آرمی اکیڈمی کی طرف سے کوئی سہولت نہ تھی طلباء کو اپنے طور پر ہی یہ انتظا م کرنا تھا۔

علاقائی لوگوں کو چونکہ پہلے پہل کچھ علم نہ تھا اس لئے لاعلمی میں وہ بھی طلباء کی مدد سے قاصر رہے۔لیکن جوں ہی دو چار دن میں طلباء کی بے بسی اور لاچاری سے علاقائی لوگوں کو واقفیت ملی انہوں نے انفرادی اور اجتماعی امداد کی حتی المقدور کوشش کی اور تعاون کی ہر ممکن کوشش کی۔
یہاں ان سبھی انسان دوست لوگوں کے نام کا احاطہ کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن ان سبھی جذبوں کو سلام۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ان کے لئے اجر کی امید کرتے ہوئے میں ان چند افراد کا نام یہاں ضرور لینا چاہوں گی جو اس کار خیر میں نہ صرف اجتماعی مدد کے محرک بنے بلکہ قدم در قدم،بہ نفس نفیس خود اپنی خدمات پیش کیں۔
امسال ہزاروں کی تعداد میں صوبہ مہاراشٹر کے کونے کونے سے آرمی اکیڈمک میں شریک ہونے والے طلباء ایک قسم کی بے سرو سامانی کا شکار تھے نہ سر پر چھت موجود نہ ہی پیروں تلے زمین،اور نہ ہی کھانے اور پینے کا کوئی ٹھکانہ تھا۔مہاراشٹر کے دیہی علاقوں سے جو طلباء آئے ہوئے تھے ان کی ناداری ان کے چہروں اور خستہ حالی کی عکاسی کر رہی تھی،اسی خاطر وہ اپنے لئے ایک روشن مستقبل کی تلاش میں یہاں آئے ہوئے تھے۔روزانہ ہزار طلباء کے کھانے اور پینے کا انتظام کافی دشوار گذار عمل تھا لیکن پھر ایسے میں اسی ممبرا کی زمین پر مسلمانوں کی ایک جماعت حرکت میں آئی اور فوجی داخلے کے امیدوار طلباء کے لئے انہوں نے کئی انتظامات اپنے ذاتی خرچ پر کروائے اور یوں وطن کے مہمان طلباء کی مشکلات کا حل بن گئے۔
طلبہ کے ایڈمیشن سینٹر ابو الکلام آزاد اسٹیڈیم کے سامنے ہی ایک عمارت جسے لوگ گریس اسکوائر کے نام سے جانتے ہیں۔ اس بلڈنگ سے طلباء کی راحتی سامان کا یہ انتظام قابل تعریف ہے کہ گریس اسکوائر فیس ٹو کے سوسائٹی ممبرز کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں کھانا،پانی،بسکٹیں اور بیت الخلاء جیسی اہم اور ناقابل گزیر ضرورتوں کے لئے انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دئے۔
یومیہ ہزاروں لیٹر پانی بلڈنگ سیکیورٹی گارڈز اپنے ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر مہمان طلباء تک پہنچاتے رہے،سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے گرچہ انہیں کامپلیکس میں داخل ہونے نہیں دیا گیا لیکن بلڈنگ کے داخلی دروازے پر ان کے لئے ہر ممکن مدد کی کوشش کی۔
سردی کی ایک سخت رات کو سوسائٹی کے مرد،بچے اور عورتوں نے ساری رات ان طلباء کے لئے چائے اور کافی کا انتظام کیا۔یہ منظر بڑا ہی خوش کن اور جذبات کو بیدار کرنے والا تھا کہ وطن کے مہمانوں کی ضیافت کے لئے ہر کوئی آگے آگے تھا،بچے بڑی خوشی خوشی ہر کام میں آگے آگے تھے مانو عید سا سماں تھا۔
جناب پرویز صاحب،بدر الدین  چودھری،انصاری زبیر،سفیان خان اور فضیل خان اور ان کے دیگر مصاحب ماشاء اللہ کافی متحرک رہے اور ان شاء اللہ آنے والے سال میں ان کے عزائم ان آرمی طلباء کے تعلق سے کافی بلند اور پختہ ہیں،سوسائٹی (فیس ٹو) نے آنے والے سال میں ان کے لئے مزید بہترین انتظام کا تہیہ کیا ہے،اللہ انہیں کامیاب کرے۔
عوامی لوگوں کے اس مثالی تعاون کے ساتھ ساتھ اہل علم کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔محض لوگوں کو پند و نصائح نہ کرتے ہوئے اسی گریس اسکوائر کی مسجد کے خطیب محترم مفتی یوسف صاحب (بانی العلم اکیڈمی)،امام مسجد حافظ مختار صاحب  اور ان کے نوجوان رفقاء نے فیلڈ ورک کرتے ہوئے جو عدیم النظیر خدمات اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر انجام دی ہیں وہ اہل ممبرا اور اہل ممبرا کی میزبان کی شخصیت میں چار چاند لگانے کو کافی ہیں۔
طلباء کو روزانہ ان کے داخلے کے لازمی کاغذات کی زیراکس کاپی درکار ہوا کرتی تھی جس کے لئے زیراکس مشینیں بٹھائی گئیں۔17/دسمبر سے لے کر داخلے کے آخری دن 23/ دسمبر تک تمام  طلباء کے لئے مفت زیراکس کا اہتمام کیا گیا۔مفت فون چارجنگ کی سہولت فراہم کی اور اس کے ساتھ روزانہ 500سے 600لیٹر پینے کا پانی فراہم کرتے رہے۔اللہ ان سبھی کی خدمات کو قبول فرمائے۔اور بردارن وطن کے دلوں میں ہماری عظمت،محبت اور صداقت کو جاگزیں کردے۔
آج جب ملک کا گوشہ گوشہ سسک رہا ہے ظالموں کے پنجہ بر بریت نے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری  ملک کو دبوچ کر اس کی جمہوریت پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ان حالات میں جب ہر دوسرا ہندوستانی اپنے وجود اور دو گز زمین پر استحقاق اور اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے زہریلے اور سیاسی اجگروں کے سامنے خود کو نگلوانے پر مجبور ہے۔انسانی مکھوٹوں میں موجود یہ فاشسٹ بھیڑئے ہندوستانی عوام کو سالم نگل لینا چاہتے ہیں ہر کوئی من مرضی کا حصہ چبا جانا چاہتا ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسے شر پسندوں کا ایک ہی انجام ہے وہ ہے خاتمہ۔۔۔۔۔ ان کا، اور ان کی دسیسہ کاریوں کا آج نہیں تو کل ان کا وناش ہونا طے ہے۔
ہندوستانی عوام کو خوف و ہراس میں رکھنے والے یہ کریہہ القلب کیا جانیں؟
مذہب کے نام پر اپنے سیاسی چولہے بھڑکانے والے ہماری ایکتا کی مٹھاس کو کیا سمجھیں؟؟؟
ہماری خوشی یا غم کی کیفیات کو وہ تعصب پرست اپنی عینک سے کیسے دیکھ سکیں گے َ جب کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ
اک غز ل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی میری دیوار میں در آئی ہے
ہندوستان کی تمام رعنائیاں اسی گنگا جمنی تہذیب سے ہیں اسی بھائی چارے سے،اسی قومی یکجہتی سے ہے جسے کوئی وقتی فرعون ذبح نہیں کر سکتا۔
اہل وطن بخوبی سمجھتے ہیں کہ مسلمان کیا ہیں؟ ہماری محبتیں،خلوص،ہماری فیاضیاں  ان سبھی کے گواہ ہم خود ہیں سرکار یا گودی میڈیا نہیں۔۔۔۔
یقین ہے مجھ کو بازی جیتنے کا،فتح میری ہے
میں گلدستے بناتا ہوں،وہ شمشیریں بناتے ہیں
ہماری محبتوں پر تم نے مسجدیں ڈھائیں،ننگی سیاست کا ناچ کیا،ہماری بہنوں بیٹیوں کے شکم چیر کر ان کی اولاد کو اپنے نوک خنجر پر اچھالا،ہماری مسجدوں کی حرمت کو پامال کیا،ہماری داڑھی ٹوپی اور کرتوں میں ملبوس مردوں اور بزرگوں کو نذر آتش کیا،اپنی جیلوں کو ہمارے جوانوں سے پاٹ دیا،ہماری معیشت کو تم نے جلا کر خاک میں ملانے کی بار ہا کوشش کی ہے،یہ بابری کی جھلک ہے،یہ گوودھرا کی جھلک ہے،یہ جامعہ ملیہ اور یوپی کے نہتے طلباء اور عوام کی ہے جن پر تمہارے غنڈوں نے شب خون مارا۔تم نے اقتدا میں آتے ہی اپنے سادھووں اور سوامیوں کو باعزت بری کروا دیا،ملک کی سب سے بڑی قومی تحقیقاتی ایجنسی کو ہی ملزمین کے باعزت بری کرانے پر مامور کرادیا،لیکن اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے ہم سبھی سمجھ چکے ہیں کہ اس ملک میں انصاف کی اندھی دیوی کن پر مہربان اور کن لوگوں کو تہہ تیغ کردینا چاہتی ہے۔
تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاید
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
اسی لئے آج ہم نے پھر سے اپنی بکھری ہوئی انگلیاں ملالی ہیں تاکہ اپنی ہتھیلیاں مضبوط کر سکیں اور پھر سے کوئی ”انگولی مال“یا ”کیسری آدم خور“ ہماری انگلیاں نہ کاٹ لے جائے یا ہمارے ہاتھوں کو کمزور نہ کر سکے۔
کے آر نارائنن کی ”انڈ توا“ کی تعبیر آج بھی تمہاری ”ہندتوا“ پر بھاری ہے ہم سب آج بھی اسی ہندوستان کا حصہ ہیں جہاں بابری دھماکوں میں ہم نے اس ہندو کی حفاظت کی جو ہمارا پڑوسی تھا جو بے قصور تھا جو ہمارا حصہ تھا اور ہندو بھائی ہماری حفاظت کے لئے فرقہ پرستوں کے آگے ڈھال بنے ہوئے تھے۔
مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے جب آدھی آدھی رات کو ایک بے ہنگم سا شور اٹھتا اور لوگ سراسیمہ ہونے کی بجائے گھروں سے لاٹھی ڈنڈے سرئیے لیکر نکل پڑتے کہ اگر کسی نے محلے میں داخل ہوکر کسی قسم کا فساد پیدا کیا تو اس کی خیر نہیں۔
لوگ الاؤ جلا جلا کر اپنے علاقوں کی پہرے داری کرتے رہے،ان میں ہندو بھی تھے کچھ ہندو بزرگ بڑی شفقت سے خواتین اور بچوں سے کہتے تھے بچو!!! گھبرانا نہیں جو آئیگا پہلے ہم سے نپٹے گا پھر تم تک پہنچے گا،دروازے اندر سے بند کرو اور بچوں کو لے کر سو جاؤ،ہم یہاں بیٹھے ہیں تمہاری رکشا کے لئے۔ ایک پڑوسی اصلاً بنیا تھے،بابری کے دنگوں میں انہوں نے اپنا سارا گودام خالی کردیا اور محلے والوں کو راشن تقسیم کردیا کہ جانے کتنے دنوں تک فساد کا زور رہے۔
میں نے ایسا ہندوستان دیکھا ہے بلکہ ہم سب نے ایسا ہی ہندوستان دیکھا ہے۔جانے یہ ستہ کے تین منحوس بندر آنے والے دنوں میں ہندوستان کو کیا دکھلانا چاہتے ہیں؟
ہم سب ایک ساتھ سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں بن دھوئیں والی رسوئی کا سنہرا سپنہ دکھا کر آپ نے ہمارے توے پر پڑی ہوئی روٹی بھی غائب کردی ہے اور آج ہمیں کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی آڑ میں تم نے اپنے نر بھکشی نیتاؤں کو چھوڑ رکھا ہے کہ پہلے ان سے بیٹی بچا کر دکھاؤ پھر بچ گئی تو اسے پڑھا بھی لینا۔
آرمی ایڈمیشن کے طلباء یہاں سے گھر لوٹتے ہوئے بڑے مسرور  و مشکور تھے۔مسلمانوں سے گھری آبادی میں طلباء نہایت اطمینان اور سکون سے اپنے داخلے کی کارروائیاں کرتے رہے،این آر سی اور کیب مخالف ماحول میں بھی مسلمانوں نے جس محبت و احترام اور قومی یکجہتی کا پیغام دیا ہے اسے کوئی کیسری سمجھے نہ سمجھے آرمی کے وہ ہزاروں طلباء مسلمانوں کے اس ہمدرد انہ سلوک کے معترف ضرور ہیں،جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان نوجوانوں نے اپنے شہر جاکر اپنی میڈیا میں یہاں کے مسلمانوں کی خیر سگالی اور ان کی فیاضی اور سخاوت کے قصے بیان کئے۔