Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 21, 2020

بھارتیہ سماج کے مظلوم و محروم طبقے کا متحدہ محاذ۔۔۔۔۔۔۔وقت کی اہم ضرورت۔



از قلم ✍ احمد نور عینی/صداٸے وقت۔
==============================
ہمارا یہ دیش دنیا کا قدیم آبادی والا دیش ہے. کتنے ہی کارواں آئے اور یہاں پڑاؤ ڈالا اور کتنی ہی قومیں آئیں اور انھوں بھارت کو اپنا مسکن بنایا. آنے والوں میں ایک طبقہ ایسا بھی آیا جس نے اس ملک کے سماج کو عزت کی بلندیوں سے ذلت کی پستیوں میں ڈال دیا. یہ طبقہ برہمن کے نام سے جانا جاتا ہے.


تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ طبقہ 1500 قبل مسیح میں بھارت آیا. برہمن طبقہ جب بھارت آیا تو اس نے بھارتیہ سماج کو چار حصوں میں تقسیم کیا
برہمن
چھتری
ویش
شودر

شودر کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا. بیک ورڈ, ایس سی, ایس ٹی. پھر بیک ورڈ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا. اپر بیک ورڈ, ادر بیک ورڈ (او بی سی) موسٹ بیک ورڈ.
ایس سی ایس ٹی او بی سی ہے کیا؟
ایس سی: شیڈولڈ کاسٹس
ایس ٹی: شیڈولڈ ٹرائبس
او بی سی : ادر بیک ورڈ کاسٹس
اردو میں یوں ترجمہ کیا جاتا ہے:
ایس سی: درج فہرست ذاتیں
ایس ٹی: درج فہرست قبائل
او بی سی : دیگر پچھڑی ذاتیں

ایس سی ایس ٹی کا نام دستوری ہے. یعنی یہ نام ان لوگوں کو دستور میں دیا گیا ہے. ہم جنھیں دلت کہتے ہیں وہ یہی طبقہ ہے مگر یہ لوگ دلت لفظ کو پسند نہیں کرتے اس لیے انھیں ایس سی ایس ٹی یا بہوجن کے نام سے ذکر کرنا چاہیے. (بہوجن کی وضاحت آگے آئے گی). دھرم شاستروں میں ان کو جو نام دیے گئے ان سب میں ذلت وحقارت کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لیے یہ لوگ اپنے لیے ایس سی ایس ٹی کا لفظ استعمال کرتے ہیں.

برہمنوں نے شودروں کو 6500 ذاتوں میں تقسیم کیا. پھر ذیلی ذاتیں بناکر انھیں تقریبا 78000 ٹکڑوں میں تقسیم کردیا. پھر اسی پر بس نہیں کیا بل کہ شودر کی ان ذاتوں اور ذیلی ذاتوں میں فاضل مفضول کی نفسیات پیدا کیں. ہر فاضل اپنے مفضول کو حقیر سمجھتا ہے اور ہر مفضول اپنے سے فاضل سے حسد کرتا ہے. یہ سب شودروں کے درمیان ہوتا ہے. برہمن انھیں آپس میں لڑا کر اپنا الو سیدھا کرتا ہے.

برہمن یہاں 1500 قبل مسیح میں آئے. اس وقت سے انھوں نے بھارت سماج کو اپنا غلام بناکر رکھا ہوا ہے. چھتری اور ویش کو بہ ظاہر باعزت طبقہ باور کرایا جاتا ہے مگر حقیقت میں ان کا کام بھی برہمن کی خدمت کرنا ہے. برہمنیت کے خلاف تاریخ میں کئی تحریکیں اٹھیں جن میں گوتم بدھ کی تحریک کو نمایاں مقام حاصل ہے. گوتم بدھ نے غیر برہمنوں کو بہوجن کا نام دیا جس کا ترجمہ سنسکرت میں اکثریت ہے. آج بھی بہوجن کا لفظ غیر برہمن طبقے اور خاص کر ایس سی ایس ٹی کے لیا استعمال کیا جاتا ہے.

برہمن مسلمانوں کے خلاف بھارتی سماج کو بھڑکانے کے لیے کہتے ہیں کہ یہ لوگ باہری ہیں. آئیے دیکھتے ہیں کہ باہری کون ہے. ڈی این اے کے ذریعہ کی جانے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ برہمن اس دیش کے اصلی باشندے نہیں ہے. یہ تحقیق ٹائمس آف انڈیا نے 21 مئی 2001 کو اپنے اخبار میں شائع کی تھی (یہ رپورٹ اس تحریر کے ساتھ موجود ہے) باہر سے آنے والے برہمنوں نے مسلمانوں کے خلاف باہر سے آنے کا اتنا بڑا ہنگامہ مچایا کہ غیرمسلم طبقے کی بڑی تعداد ان سے متاثر ہوگئی. حالاں کہ مسلمان باہر سے نہیں آئے. مسلمان نسلی اور سماجی تقسیم میں شودر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں. برہمن نے بڑی چالاکی سے یہ کھیل کھیلا کہ سماجی تقسیم میں مسلمانوں کو اقلیت میں کرنے کے لیے مذہب کا کھیل کھیلا. اور مسلمان بھی بے شعوری ہے میں ان کے اس جال میں پھنستے گئے. 

برہمن نے بڑی چالاکی سے ایک کام اور کیا کہ انھوں نے اپنے مذہب اور اپنے لٹریچر کو پورے بھارتی سماج کا مذہب اور لٹریچر باور کرایا. ہم نے بھی اسی کو حقیقت سمجھا. ہم جس مذہب اور جس لٹریچر کو بھارتی سماج کا مذہب ولٹریچر سمجھتے ہیں وہ در اصل برہمن کا مذہب ولٹریچر ہے. *گیتا اس مذہب کا فلسفہ ہے اور منوسمرتی اس کا قانون ہے. ایک زمانے سے یہ لوگ منوسمرتی کو باضابطہ نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں.* جزوی اور غیر رسمی طور پر تو منوسمرتی سماج کے رگ وپے میں سرایت کرچکی ہے. اب ان کی کوشش ہے کلی وسرکاری طور پر اسے لاگو کردیں. سی اے اے اور این آر سی کے پیچھے یہی آئیڈیالوجی کام کر رہی ہے.

برہمن کے اندر نسلی عصبیت حد درجہ پائی جاتی ہے. ان کے بنیادی طور پر آٹھ خاندان پائے جاتے ہیں. کسی دوسری نسل کو یہ لوگ برہمن میں داخل نہیں کرتے ہیں. اس لیے برہمن اس ملک میں ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں. آج بھی برہمن اس ملک میں صرف ساڑے تین فی صد ہیں. یہ اس ملک کی عجیب حقیقت ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت برہمن ہیں اور مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اکثریت ہے. برہمنوں نے خود کو اکثریت میں ثابت کرنے کے لیے اس ملک کے ایس سی ایس ٹی او بی سی اور چھتری شودر سب کو ہندو لفظ کے ذریعہ متحد کردیا گیا. اور نعرہ دیا گیا کہ گَرو سے کہو ہم ہندو ہیں. حالاں کہ اس ملک کے سماج کے لیے ہندو کا لفظ کسی بھی دھرم شاستر میں نہیں ملتا. مگر ہم مسلمان بھی برہمن کی اس سازش کو سمجھ نہیں پائے اور برہمن کی طرف سے بنائے گئے سماج کے چاروں طبقات کو ہندو سمجھنے اور کہنے لگے ہمیں ایک بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ برہمن جس قانون اور دستور کو مانتے ہیں وہ منوسمرتی ہے. منوسمتری کی بنیاد جس تقسیم پر ہے وہ سماجی تقسیم ہے نہ کہ مذہبی. ہندو مسلم کی مذہبی تقسیم کو ان لوگوں نے اپنے گھٹیا مقاصد حاصل کرنے کے لیے عام کی ہے. ہم نے اسی تقسیم کو اصل سمجھا یہ ہماری بہت بڑی غلطی رہی ہے.

 برہمن چوں کہ صرف ساڑھے تین فی صد ہیں انھیں اپنا کام کرنے کے لیے افرادی وسائل چاہئیں اس لیے انھوں نے شودروں کی دو بنیادی تقسیم کی: چھوت اور اچھوت. اچھوت میں ایس سی اس ٹی آتے ہیں. اور اچھوت کامطلب ان کے یہاں نجس العین کے ہیں. چھوت میں ان لوگوں نے او بی سی کو رکھا ہے. یعنی یہ لوگ رہیں گے تو شودر ہی لیکن نجس العین نہیں ہوں گے. برہمن طبقہ شودروں کے اس چھوت طبقہ کے چہروں کو اپنے کام کے لیے استعمال کرتے ہیں. یعنی دماغ برہمن کا ہوتا ہے مگر سامنے چہرہ ان چھوت شودروں کا ہوتا ہے. اور اب تو مصلحتا اچھوت چہروں کا استعمال بھی شروع کردیا ہے. او بی سی اس سماج میں 52 فی صد ہیں. انھیں 52 فی صد تحفظات ملنے چاہیے تھے. مگر برہمنوں نے انھی ستائیس فی صد تحفظات دیے جو گھٹ کر 4 فیصد ہوگئے. اور زمینی وتطبیقی سطح پر چار فی صد بھی نہیں رہے.

سماج کی اس غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کرنا اور محروموں ومظلوموں کا ایک محاذ بنانا اس قوم کا کام ہے جو دنیا سے نا انصافی ختم کرنے کے لیے مبعوث کی گئی ہے. کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ؟؟؟؟