Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 3, 2020

سی اے اے پر ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امت شاہ۔

صداٸے وقت/پریس ریلیز /مورخہ ٣جنوری ٢٠٢٠۔
========================
آج بتاریخ 03 جنوری 2020ء کو بھارت کے وزیر داخلہ نے جودھپور میں ایک جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے حکومت کے عزم کا اظہار کیا کہ *ہم CAA پر  ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے* ایسے میں کچھ لوگوں کی نظریں سپریم کورٹ سے 22 جنوری کو آنے والے فیصلے پر لگی ہیں لیکن حالیہ معاملات میں سپریم کورٹ کے یک طرفہ فیصلوں کے بعد کچھ خاطر خواہ توقع نہیں ہے. کیونکہ ملک عزیز کع ہندو راشٹر بنانا آر ایس ایس کا مرکزی بنیادی ایجنڈا ہے.

*ایسے میں یہ جنگ لمبی چلنے والی ہے* جن لوگوں نے سماجیات یا تاریخ کا مطالعہ کیا ہے انہیں معلوم ہوگا کہ کوئی بھی عوامی تحریک کچھ دنوں یا مہینوں کے بعد سرد پڑنے لگ جاتی ہے اور اس کو اچھے قائدین کی سخت ضرورت ہوتی ہے. بہت تشویش کی بات ہے کہ ہماری قوم کے بہت سے قائد خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں. کچھ حلقوں میں یہ بھی احتمال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس احتجاج کو کوئی مذہبی رنگ نہ دیا جائے جو کہ بالکل درست ہے تو ایسے میں بہت سے ایسے غیر مسلم انصاف پسند لوگ سرکردہ ہیں جیسے کہ یوگیندر یادو، کنہیا کمار، سابق آئی ایس آفسر کنن گوپی ناتھن وغیرہ تو کیوں ہم ایسے لوگوں کو اپنے ہاں مدعو نہیں کرتے؟

بھاجپا نے طئے کیا ہے کہ وہ ملک بھر میں 1000 ریلیاں نکال کر کے 3000 خاندانوں تک پہنچ کر میڈیا کے ذریعے انہیں اپنے موقف کا قائل کروائے گی. جب کہ آج بھی ہماری اکثریت اس قانون کے آئینی نکات سے واقف نہیں ہے تو اپنی عوام کو ان تمام سے واقفیت کروانا بھی ہناری ہی ذمہ داری ہے.

جہاں تک احتجاج کی بات ہے ہمیں اس کو جاری رکھنا ہے اور اس میں اس بات کا خیال رکھا جائے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ہدایت کی تھی کہ احتجاج کھلے میدان میں غیر مدتی ہو کہ اسی میں جان، مال کی حفاظت ہے اور میڈیا بھی اس سے متاثر ہوگا جس کی بہترین مثال دہلی کے شاہین باغ اور جامعہ نگر کے لوگوں نے پیش کی ہے. ایسے احتجاج میں کم از کم ہزار سے زائد افراد ہوں ورنہ پولیس کا شکار ہو سکتے ہیں.

صوبہ اتر پردیش کے تمام بڑے شہروں جیسے کانپور، رامپور، بجنور، گورکھپور، وغیرہ میں پولیس کی بربریت کی وجہ سے لوگوں کے حوصلے پست ہو چکے ہیں اور شاید آنے والے کئی سالوں تک وہ اس صدمہ سے نہ ابھر پائیں لہذا دوسرے صوبوں میں لوگ ذیادہ سے زیادہ کوشش کریں اور بشمول اتر پردیش کے سیاسی، سماجی، مذہبی قائدین اپنی قوم کی قیادت کا بار اٹھائیں اور امن کے ساتھ اپنی صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں.

اگر اب بھی ہم بیدار نہ ہوے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے اور ہم جواب نہیں دے پائیں گے کہ جب اتنے حساس موضوع پر جس کا راست تعلق مستقبل میں ہماری جان، مال، ایمان اور آئین سے متعلق اتنا برا فیصلہ لیا جا رہا تھا اس وقت ہم کیا کر رہے تھے؟ ابھی بھی لوگ خواب غفلت میں ہیں *تو جو لوگ با شعور ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے بیچ میں جا کر چاہے دس بیس لوگوں کی محفل ہو اس مسئلے کی وضاحت کریں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اس قانون کی آئینی حیثیت کو خوب جان لیں اور پھر عوام تک عام کریں*

جاری کردہ : مسلم مفکرین گروپ