Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 3, 2020

روش روش پر خارج ہیں بہار ہے دھواں دھواں۔۔۔بیتے سال 2019 کی کچھ تلخ یادیں۔



شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/صداٸے وقت۔
==============================
2019کی ساعتیں اپنے دامن میں  تار تار انسانیت،لٹی ہوئی عصمتوں، زخم زخم فضاؤں، بے بس مظلوموں کی آہوں،اور انا پرست اقتدار کے سفاک کرداروں کی دلخراش داستانوں کو سمیٹنے ہوئے رخصت ہو گئیں،
ایک نئے سال کا آغاز ہوا،2020کا سورج اسی آب وتاب کے ساتھ اپنی سنہری کرنوں سے ایک عالم کو اجالوں کی سوغات عطا کرتا ہوا نمودار ہوا،خود غرض دنیا نے اپنی وسعتوں کے مطابق اسی طرح اس کا استقبال کیا ماضی قریب میں جس طرح کرتی آئی تھی
شہنائیاں بجیں رقص ہوئے،نغموں کی برسات ہوئی،
موسیقی کی تانوں پر اجسام تھرکے، اور وہ سب کچھ ہوا جو جشن کے نام پر ہوتے ہیں،

لیکن۔۔۔آہ زندگی کے مقاصد سے بے خبر انسانیت کی اسی بھیڑ میں جب سڑکیں ان کے بے ہنگم رقص سے بھری ہوئی تھیں، میخانوں میں شراب کے دور چل رہے تھے،عیش ونشاط کی بزم آرائیاں شباب پر تھیں عین اسی لمحے انسانیت کے محافظوں کی ، آزادی کے متوالوں کی ،شمع وطن کے پروانوں کی،مساوات وعدالت کے علمبردار وں کی اور علم و ادب کے مسافروں کی ایک بڑی تعداد دارالحکومت دہلی کی شاہراہوں پر موسم سرما کی سخت یخ بستہ رات میں قانون وملک کی سلامتی کے لئے کھلے آسمان کے نیچے،شریانوں کو منجمد کردینے والے کہروں کا سامنا کرتی ہوئی سراپا احتجاج بن کر بے یارومددگار پڑی ہوئی تھی،
کیا مرد اور کیا خواتین کیا بچے اور کیا بوڑھے آج اٹھارہ روز سے اقتدار کی نسل پرستی اور فرقہ وارانہ کردار وقانون کے خلاف دن کا سکون اور راتوں کی نیند قربان کرکے سڑکوں پر انسانیت کے تحفظ اور اس کے حقوق کے لیے جان کی بازی لگا کر 1947سے پہلے ملک پر قربان ہونے والے مجاہدین کی داستان رقم کررہے ہیں،
پہلی جنوری کا سورج طلوع ہوا اور پوری آب وتاب سے جلوہ نما ہوا، تاریکیاں چھٹیں،سناٹے ٹوٹے،اوراجالوں کی چادریں ہر سو پھیل گئیں،
مگر حقیقت یہ ھے کہ درد آشنا دلوں اور اخلاق و انسانیت
کے پرستاروں کے لئے اس تاریخ کے آفتاب کی شعاعوں میں محفل جشن وطرب میں جگمگاتی ہوئی الیکٹرانک قندیلوں کی شوخیاں مفقود تھیں ،جس میں کاروبار ہستی کے ہنگاموں کا عکس نظر آتا ہے'شب گزیدہ سحر کے بعد پھیلی ہوئی ان کرنوں میں کسی ویران مزار پر رکھی ہوئی موم بتیوں کی اداسیاں جھلک رہی تھیں، شعاؤں میں وہ تابناکی نہیں تھی جو وادی کہسار سے لیکر دامن دل میں بھی بہاروں کا سماں پیدا کردیتی ہے'،ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ان سنہری چادروں میں انسانیت کے خون کی تصویریں تھیں، مساوات کے قتل کا عکس تھا،اقتدار کی بے حسی،اناپرستی ،طاقتوں کی بربریت، حکمران وقت کی سفاکیت، نسل پرستانہ جنون،
ایک کمیونٹی کے خلاف نفرت وتعصب اور مظلوموں کی بے بسی کی لہو رنگ تصویری داستان نمایاں تھی۔

ماحول جب کمزور انسانوں کے لہو سے رنگین ہو،سیاست جب چنگیزی کا روپ دھار لے،عدالت جب جانب دار ہوجائیں، انصاف ودیانت کے سوتے جب خشک ہوجائیں، نسل پرستانہ نظریات اور فرقہ وارانہ نظام کا جب ملک ووطن پر تسلط ہوجائے، وقت کا حاکم جب خود اپنی عوام کے خلاف آمادہ ظلم ہوکر حیوانیت پر اتر آئے تو ایسے ملک کے لئے،ایسے حالات میں اور ایسے معاشرے کے لئے مسرتوں کے لمحات اسی طرح ہوتے ہیں'جیسے جنازے کی موجودگی میں محفل عیش و نشاط، سو وجدان کی آواز ہے'کہ سلگتے ماحول کے اس لمحے میں نئے سال کے آفتاب میں ہمارے دلوں میں نہ کسی قسم کی کشش ہے'نہ جاذبیت،

طوفان آتے ہیں لمحوں میں آبادیوں کو تہ وبالا کرکے گذر جاتے ہیں'،سیلاب آتے ہیں' خوفناک موجیں بربادیوں کا سگنل دیتی ہیں اور فنا ہوجاتی ہیں'،
ظلم وبربریت کے جھونکے چلتے ھیں رخصت ہوجاتے ہیں' سیاسی ہواؤں کی سازشوں کے نتیجے میں ایک قوم پر پرسنل لا ء ماآب لینچیگ، مخصوص ریاستی حقوق پر شب خون اور عبادت گاہوں پر غاصبانہ تسلط اور پھر انصاف کے مندر سے زمیں دوز کارروائیوں ذریعے اس تسلط کے جواز نامے پر مشتمل قیامتیں آئیں اور قوم مسلم کے سروں سے گذر گئیں،مسلمانوں نے سارے دکھ سہ لئے،منافرت کے تمام رویوں اور قومیت ونظریات کے لحاظ سے حکومتی سطح پر تمام دہرے پیمانے پر صبر کرلیا۔۔۔
لیکن کہتے ہیں جب کسی درندے کو خون کا چسکا لگ جاتا ہے'تو اس سے کم پر اب راضی نہیں ہوتاہے، حکمران وقت کے مسلسل متعصبانہ اقدامات اور غیر منصفانہ پالیسیوں سے بھی ان کے دل کی پیاس نہ بجھی تو اس نے مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے کا ہی فیصلہ کرلیا اور این آر سی اور CAAکے نام پر ان کی شہریت پر حملہ کردیا ہے
جس وطن کے لیے قوم کے لاکھوں سپوتوں نے سردھڑ کی بازی لگا دی اسی سے محروم کرنے کی کوششیں اور سازشیں ایک جمہوری ملک میں کسی طرح قابل برداشت ہو سکتی تھیں نہ ہی قابل تسلیم۔۔۔

اس کے خلاف آواز اٹھنی تھی ،ایک دانشگاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے اٹھی،بلند ہوئی،اور جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک پر چھا گئی، اور ایک تحریک کی حیثیت اختیار کرگئی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مسلمان بھی شامل ہوئے ہندو بھی، دوسری یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس بھی کندھے سے کندھا ملا کر شریک سفر ہوئے اور عام آدمی بھی،
مزدور بھی شامل ہوئے اور کسان بھی، سیاسی گلیاروں کے سورما بھی نظر آئے اور مذہبی اور ادبی افراد بھی،

اقتدار کی جبینوں پر شکن آئی، طاقتیں حرکت میں آئیں ، شمشیریں بے نیام ہوئیں،بندوقوں نے دہانے 
کھولے، اور ایک لمحے میں سیکڑوں افراد خاک وخون میں تڑپ کر رہ گئے،حقوق انسانی کی آوازوں پر پابندیاں لگانے کے حوالے سے ظلم وجبر اور وحشت وبربریت کا سلسلہ شروع ہوا تو ہنوز تھم نہیں سکا،ملک کو انگریزی استعماریت کے عہد میں داخل کردیا گیا،آئین کو مجروح اور سیکولرازم کا گلا گھونٹ دیا گیا،

21دسمبر کو پٹنہ میں مظاہرین پر تشدد کی زد میں حنظلہ نامی ایک بے قصور نوجوان بھی آیا اسے اغوا کرلیا گیابارہ روز بعد جب اس کا وجود پولیس اسٹیشن سے برآمد ہوا تو جسم سے روح کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا، شہید حنظلہ اپنے والدین کا اکلوتا فرزند تھا جس نے ملک کے نام پر انسانیت کے تحفظ اور جمہوریت کی سالمیت کے خونی اسٹیج پر اپنی جان قربان کردی،
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں مظاہرے کے دوران کیمپس کے اندر ملک کی بہادر فوجوں کی بربریت میں سیکڑوں افراد کے ساتھ عبید الرحمن اراضی بستوی
بھی تشدد کی زد میں آیا،اس کے جسم پر بھی بہادری کے جوہر دکھائے گئے اس کے وجود کو زخم زخم کیا گیا زندگی اور موت کی کشمکش میں آج وہ بھی زندگی کی بازی ہار کر شہادت کو گلے لگا لیا، 

ملک بھر میں اضطراب پیدا ہوا، انسانیت کا درد رکھنے والوں میں صف ماتم بچھ گئی، سیکولر دنیا سوگوار ہوئی، مگر جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا خاموش رہا حکومت کی بے حسی کے سمندر میں یہ قربانیاں بھی تموج پیدا نہ کرسکیں، طاقتوں کے پاؤں میں اس حوالے سے جنبش نہ ہو سکی،کہ جب قوت کا نشہ چھاتا ہے'، کبر و نخوت کے حصار میں فرمانروائی قید ہوجاتی ہے، نسل پرستی زندگی کا مقصد قرار پاتی ہے'،تو مساوات وانسانیت کی بہاریں رخصت ہوجاتی ہیں، رواداری اور انصاف بے موت مرجاتے ہیں'، اقتدار متعصب،میڈیا فرقہ پرست، سرمایہ دار بے رحم،سیاست مفادات کی کنیز،اور جمہوریت بے روح ہوجاتی ہے'،یہی وجہ ہے کہ شوشل میڈیا ٹیوٹر پر جب انصاف کی آوازیں بلند ہوئی اور ایک سیاہ قانون کی مخالف کا سیلاب اٹھا،ملک وحکومت کی رسوائی عام ہوئی تو خود حکمران وقت نے اپنے مخصوص ہمنواؤں کے ساتھ پروپیگنڈوں کا سلسلہ شروع کردیا،اور اپنی غیر آئینی پالیسی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انصاف ودیانت سے بے پروا کذب و افتراء اور مکر وفریب کو پھیلانے کے لئے پوری طاقت جھونک دی،

ایسی صورت حال میں نئے سال میں طلوع ہونے والے سورج کا ایک پژمردہ قوم کیونکر استقبال کرے،
کرہ ارض پر بے شمار مخلوق کو زندگی سے آشنا کرنے والی روپہلی کرنوں کو کس طرح حیات تازہ کا پیغام باور کرے، اس کے داغ داغ اجالوں کو کس امید پر امن وسلامتی کی نوید سمجھے،کہ یہاں درخت کی ایک شاخ نہیں
پورا گلشنِ ہستی موت کی خزاں کی زد میں ہے'،
المیہ یہ ہے کہ تاریکیوں کے اس سناٹے میں بھی ملت کے اتحاد کی کہیں سے کوئی آواز نہیں آتی،کہ شمع ملک کے پروانوں کی سرفروشانہ سرگرمیاں ناقابل شکست اور بحر بیکراں کی طرح ہوجائیں، 

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی