Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 19, 2020

این آر سی سے جڑی زبیدہ بیگم کی ایسی داستاں، 15 دستاویز دکھانے کے بعد بھی نہیں ملی شہریت۔

آسام ملک کی اکیلی ریاست ہے جہاں این آر سی نافذ کیا گیا جس نے وہاں کے 40 سے 41 لاکھ لوگوں سے ان کی شہریت چھین لی۔ انہیں لوگوں میں شامل ہے آسام کی زبیدہ بیگم عرف زبیدہ خاتون نام، جن کے 15 دستاویز دکھانے کے باوجود انہیں شہریت نہیں ملی۔

نٸی دہلی /صداٸے وقت /ذراٸع۔
=============================
ملک میں جہاں ایک طرف سی اے اے  اور این آر سی کو لیکر مخالف مظاہرے چل رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف کئی لوگ این آر سی کے چلتے کئی مشکلوں کا سامنا کررہے ہیں۔ آسام ملک کی اکیلی ریاست ہے جہاں این آر سی نافذ کیا گیا جس نے وہاں کے 40 سے 41 لاکھ لوگوں سے ان کی شہریت چھین لی۔ انہیں لوگوں  میں شامل ہے آسام کی زبیدہ بیگم عرف زبیدہ خاتون نام، جن کے 15 دستاویز دکھانے کے باوجود انہیں شہریت نہیں ملی۔
زبیدہ نے غیر ملکی ٹریبونل کے خود کو آپ کو غیر ملکی قرار دینے کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ زبیدہ کو بھروسہ تھا کہ انہیں شہریت مل جائے گی لییکن کئی دستاویز دکھانے پر گوہاٹی   نے کہا ہے کہ فوٹو کے ساتھ ووٹر شناختی کارڈ کسی شخص کی شہریت کا آخری ثبوت نہیں ہوسکتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ بھومی راجسو رسید، پین کارڈ اور بینک دستاویزوں کا استعمال شہریت ثابت کرنے کیلئے نہیں کیا جاسکتا ہے۔
زبیدہ گوہاٹی سے تقریبا 100 کلومیٹر دور بکسا ضلع میں رہتی ہیں۔ ان کے شوہر رزاق علی طویل وقت سے بیمار چل رہے ہیں اور اسی سبب 50 سال کی زبیدہ اپنے کنبے میں کمانے والی صرف ایک ہی ہیں۔ زبیدہ کو اپنے کنبہ کی پرورش کے لئے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی 3 بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کی حادثے میں موت ہوگئی اور ایک لڑکی لاپتہ ہوگئی۔ وہ اس امید پر چھوٹی بیٹی اسمینہ کو تعلیم دے رہی ہیں کہ وہ ہم جیسے مزدور کی حیثیت سے کام نہیں کرے گی۔
زبیدہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جتنی بھی کمائی کی تھی وہ ساری شہریت پانے کیلئے لڑ رہی قانونی لڑائی میں گنوا دی۔ آسام کے گویاباری گاؤں کی رہنے والی زبیدہ بیگم کو ٹربیونل نے 2018 میں غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ہار نہیں مانی اور ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ گوہاٹی ہائی کورٹ سے جنگ ہارنے کے بعد اب ان کے پاس دوسرا متبادل سپریم کورٹ ہے لیکن یہ اس غریب کی پہنچ سے کافی دور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے میری نہیں اپنی بیٹی کی فکر ہے کہ میرے  بعد اس کا کیا ہوگا۔۔