Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 29, 2020

امریکہ۔ طالبان معاہدے پر دستخط ! بظاہر 19 سالہ طویل جنگ ختم ہونے کی امید...امریکی و ناٹو کی فوجیں ہوں گی باہر۔

اس معاہدے سے قبل یہاں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے ایک سے زائد موقعوں پر ملاقاتیں کیں اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔

نٸی دہلی /صداٸے وقت /ذراٸع /٢٩ فروری ٢٠٢٠۔
================(=============
دوحہ۔ امریکہ کے اعلیٰ عہدیدار، طالبان کے مذاکرات کار اور مختلف ممالک کے مندوبین کی موجودگی میں آج 'امریکہ۔ طالبان معاہدے‘ پر دستخط ہوگئے ہیں۔ امريکی وزير خارجہ مائیک پومپیو جہاں دستخط کی تقريب ميں شریک ہیں، وہیں وزير دفاع مارک ايسپر بھی سرکاری افغان نمائندوں کے ساتھ ايک پريس کانفرنس ميں حصہ لیا۔ ہندستان کے سفیر برائےقطر پی کمارن اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس تاریخی موقع کا گواہ بننےکا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ پی کمارن کو حکومت قطر نے مدعو کیا ہے
یہ معاہدہ جس پر ہندستانی وقت کے مطابق شام سوا چھ بجے دستخط ہو رہے ہیں، بظاہر جہاں افغانستان میں زائد از اٹھارہ سالہ طویل جنگ کے خاتمےکا اعلان ہے وہیں اس سمجھوتے کے تعلق سے بباطن امکانات سے زائد اندیشے محسوس کئے جا رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس معاہدے میں طالبان کو جو رعایتیں دی جا رہی ہیں، ان کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان ميں متعین امريکی افواج کے انخلاء کی راہ کس طرح ہموار ہوتی ہے اور طالبان اورحکومت افغانستان کے مابين راست بات چیت کا آغاز کتنا مسعود ہوتا ہے!
اس معاہدے سے قبل یہاں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے ایک سے زائد موقعوں پر ملاقاتیں کیں اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ اگر یہ سلسلہ مطلق بے دم ہوتا تو مذاکرات کار بظاہر فیصلہ کن موڑ تک نہیں پہنچ پاتے ۔ اگست 2019 میں بھی فریقین معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن اگلے ہی مہینے ستمبر میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کو جنگجووں نے نشانہ بنایا جس نے سارا کھیل بگاڑ دیا اور صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات روک دیئے۔ اب چار ماہ بعد اگرچہ آج ایک تاریخی معاہدہ تکمیل کے حتمی مرحلے میں ہے لیکن حالات پر نظر رکھنے والوں کو اب بھی راستہ پوری طرح ہموار نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ ایک طرف طالبان کا ماضی کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور دوسری طرف امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں۔
افغانستان رخی عالمی اور علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاہدے میں دونوں طرف جو وِن وِن پوزیشن دکھائی جا رہی ہے اس کا تعلق افغانستان یا امریکہ کے عوام سے نہیں بلکہ طالبان کی ایک دیرینہ مانگ اور امریکی انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کی صدر ٹرمپ کی خواہش سے ہے۔ طالبان کا دیرینہ مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو ہٹایا جائے اور امریکہ میں بھی جنگی جنون سے عاجز عوام امریکی فوجیوں کی جلد ملک واپسی کے خواہاں ہیں۔ ہر چند کہ طالبان اس معاہدے میں افغان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے۔ باوجودیکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا نے اگر ذمہ داری کے محاذ پر کوئی خلا پیدا کیا تو حالات پورے خطے کیلئے بری طرح بے قابو ہو سکتے ہیں۔
اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہ تو اس معاہدے کی رو سے امریکہ و اس کی معاون فوجیں /ناٹو کی فوجیں 14 مہینہ کے اندر بتدریج افغانستان سے نکل جاٸیں گی۔