Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 29, 2020

دیوبند مظاہرہ ۔۔۔انتظامیہ مظاہرہ ختم کرانے کے لئے ہر روز نئے نئے تجربے کر رہی ہے

دیوبند/دانیال خان/29فروری2020)۔/صداٸے وقت۔
==============================
شہریت ترمیمی ایکٹ،مجوزہ این آر سی اور این پی آر کے خلاف متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام دیوبند کے عیدگاہ میدان میں شاہین باغ کی طرز پرجاری ستیہ گرہ آج34ویں دن میں داخل ہو گیا۔ستیہ گرہ کو جہاں شہر و اطراف کے لوگوں کا بھر پور تعاون و حمایت حاصل ہے وہیں انتظامیہ مظاہرہ ختم کرانے کے لئے ہر روز نئے نئے ایکس پیریمنٹ کر رہی ہے لیکن خواتین پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔دھرنا ختم کرانے کو لیکرحکومت کا انتظامیہ پر کتنا دباؤہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈی ایم آلوک کمار پانڈے کے تبادلے کے بعدجمع کے روز چارج سنبھالنے والے نئے ڈی ایم اکھیلیش سنگھ نے دیوبند ستیگرہ کو ختم کرانے کے لئے میڈیا کے ذریعہ بات چیت کی پیش کش متحدہ خواتین کمیٹی کے عہدہ داران سے کی ہے،جس پر خواتین کا کہنا ہے کہ اپنے حالیہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پر امن احتجاج کرنے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے،ہم پر امن طور پر احتجاج کر رہے ہیں کسی سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں،ساتھ ہی وہاں پر استعمال کئے جا رہے لاؤڈ اپیکر وغیرہ سے بھی کسی شخص کو کوئی تکلیف نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں مقامی انتظامیہ کو دھرنا گاہ میں ہونے والی تقاریر یا شور شرابہ سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔
احتجاج کے دوران اوقات نماز اور طلبہ و طالبات کی تعلیم و تربیت کا بھی بہت دھیان رکھا جا رہا ہے جس کے سبب عیدگاہ میدان میں لگے پورے ساؤنڈ سسٹم کو امتحانات کے پیش نظر بہت محدود کر دیا گیا ہے اور عیدگاہ میدان تک پہنچنے والی سڑک کی صفائی بھی ازخو د کر رہے ہیںتاکہ گندگی نہ پھیلے کیونکہ دیوبند نگر پالیکا کے صفائی ملازم کسی دباؤ کی وجہ سے عیدگاہ علاقہ میں صفائی ڈیوٹی انجام نہیں دے رہے ہیں۔خوانین نے عیدگاہ میدان میں بنائے گئے انڈیا گیٹ و دیگر ماڈلس کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل اتحاد کی علامت بنے ہوئے ہیں اور ہر ہندوستانی کو،ہر اقلیتی طبقہ کو تقویت بخش رہے ہیں اور اس بات کا احساس کرا رہے ہیں کہ وہ اس ملک کے معمار ہے،اس ملک کے نمائندے ہیں اور اس ملک کے حصہ دار ہیں۔عیدگاہ میدان میں جمہوری طرز پر جاری احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے فوزیہ سرور،زینب عرشی اور سلمہ احسن نے کہا کہ مرکزی حکومت سیاہ قوانین کے نفاذ کے ذریعہ ملک میں فرقہ پرستی کو پروان چڑھا رہی ہے،ان سیاہ قوانین کے خلاف اتر پردیش اور دہلی میں احتجاج کرنے والوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کی گئی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے،انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اشرار کو کھلی چھوٹ دیکر سیاہ قوانین کے ذریعہ فرقہ پرستی کو ہوا دے رہی ہے جبکہ ملک میں تمام مذاہب کے ماننے والے مل جل کر رہتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہلی کے مختلف مقامات پر پولیس کی پشت پناہی میں معصوم عوام کو نشانہ بنایا گیا۔
 اوردہلی تشدد کے مرکزی کردار بی جے پی لیڈر کپل مشرا کو اب تک بھی گرفتار نہیں کیا گیا جو بڑے شرم کی بات ہے،انہوں نے اشرار کے خلاف کارروائی کئے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آزادی کی تحریک نہیں دیکھی تھی،آج ہماری آنکھیں یہ منظر دیکھ رہی ہیں،آج ملک میں جمہورت اور دستور کے تحفظ کے لئے یہ جنگ جاری ہے بر سر اقتدار حکومت ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے کیونکہ متنازہ قوانین ملک دشمن اور دستور مخالف ہیں۔ ارم عثمانی،آمنہ روشی اور شہانہ نے کہا کہ سیاہ قوانین کا مسئلہ صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ تمام شہری اس سے متاثر ہوںگے،یہ سیاہ قوانین غیر دستوری،غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہیں اور ہمیں یقین اور توقع ہے کہ ہمیں انصاف ضرور ملے گا،انہوں نے دہلی میں ہوئے فسادات کو سوچی سمجھی ساّزش بتاتے ہوئے کہا کہ یہ فساد نہیں بلکہ نسل کشی ہے جسے ہر گز برداشت نہیں کیا جا سکتا۔واضح ہو کہ دھرنا گاہ میں روزانہ مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور شہر کے علاوہ آس پاس کے علاقوں کی خواتین بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرہ میں شرکت کر رہی ہیں۔