Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 15, 2020

400 دلتوں کاقبول اسلام اور 3000 مزید دلتوں کے اسلام میں داخل ہونے کے امکانات؟

تملناڈو میں دلتوں کا قبول اسلامی۔۔۔ایک تجزیاتی رپورٹ /صداٸے وقت۔
==============================

ملک کا دلت طبقہ آ ج بھی ہندو سماج میں گھٹن محسوس کر رہا ہے۔ یہ طبقہ بڑے پیمانے پر نا انصافی، نا برابری اور استحصال کا شکار ہے۔ ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ہندو سماج میں آج تک انہیں وہ درجہ نہیں ملا جو کسی سماج میں میں ایک شخص کو ملنا چاہئے۔ قدم قدم پر انہیں تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے وہ تبدیلیٔ مذہب پر مجبور ہوتے رہے ہیں۔ یہ باتیں تبدیلیٔ مذہب کے ایک تازہ واقعہ کے سلسلہ میں کہی جارہی ہیں جس کا تعلق تمل ناڈو سے ہے جہاں 400 دلتوں نے ہندو سماج کے تفریق آمیز رویہ سے تنگ آکر مذہب اسلام قبول کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں تمل پولیگل کاچی نام کی ایک دلت تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ کوئمبٹور ضع میں 40 خاندان کے تقریباً 400 دلتوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرلیا ہے۔ یہ واقعہ جنوری کے پہلے ہفتے کا ہے اور تبدیلیٔ مذہب کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تبدیلیٔ مذہب کے اس واقعہ سے ایک اور واقعہ جڑا ہوا ہے۔ مقامی دلتوں کا کہنا ہے کہ انہیں حقیر دکھانے کے لئے ایک دیوار اٹھائی گئی تھی جسے ذات کی دیوار کہا جاتا تھا۔ یہ دیوار گزشتہ دسمبر میں منہدم ہوگئی تھی جس میں 17 افراد دب کر ہلاک ہو گئے تھے۔ حالانکہ دیوار کا گرنا اور لوگوں کی موت محض ایک اتفاق ہے لیکن ذات کی دیوار کی تعمیر سے کئی طرح کے سوال پیدا ہوتے ہیں جو دلتوں کے ذہن کو منتشر کرتا رہا اور خلفشار پیدا کرتا رہا۔ دلت تنظیم کے اراکین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ لگاتار تفریق کی جاتی ہے اور حملہ کیا جاتا ہے۔ انہیں اچھوت مانا جاتا ہے اور مندر میں داخل ہونے اور عام دکانوں میں چائے پینے کی اجازت نہیں ہے۔ ان ہی وجوہات سے دلتوں نے اسلام قبول کیا ہے اور مستقبل میں 3000 دلت قبول اسلام کر سکتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں نے اپنے حلف نامہ میں واضح کیا ہے کہ وہ کسی کے دبائو میں نہیں بلکہ اپنی مرضی سے مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنا نام بدل لیا ہے۔ 
ایسے وقت میں جب بی جے پی حکومت جگہوں اور سڑکوں کا نام بدل رہی ہے، دلتوں نے برہمنوادی نظام سے تنگ آکر تبدیلیٔ مذہب کے بعد اسلامی نام رکھنا شروع کردیا ہے جو بی جے پی کے لئے ایک تاز یانہ ہے اور اس کے سخت گیر رہنما کے منہ پر زناٹا دار طمانچہ ہے۔ دلتوں کے مشرف بہ اسلام ہونے کا تازہ واقعہ اس بات کا مظہر ہے کہ اس عہد میں بھی دلتوں کے ساتھ بھید بھائو اور ان پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے جس کے لئے سب سے زیادہ منوادی طاقتیں ذمہ دار ہیں جو دلتوں کو دیکھنا نہیں چاہتی ہیں۔ اس بات کا دلتوں کو سب سے زیادہ قلق ہے کہ انہیں ہندو سماج میں عزت نہیں ملتی ہے۔ اس سلسلہ میں دلت سے مسلمان ہونے والے ایک شخص نے برجستہ کہا ہے کہ انہیں اسلام پسندوں کے بیچ جو عزت و احترام حاصل ہوا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے ہیں۔ اس نو مسلم کا یہ بیان پورے ملک بالخصوص آر ایس ایس اور بی جے پی رہنمائوں کے لئے ایک پیغام ہے۔ اس سے سنگھ کے سر براہ موہن بھاگوت کو بھی سبق لینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ملک کے 130 کروڑ لوگ ہندو ہیں لیکن دلتوں کے ساتھ ہونے والی تفریق اور نا انصافی کی انہیں خبر ہی نہیں ہے۔ کیا ووٹ لیتے وقت دلت ہندو سماج کا اٹوٹ حصہ ہو جاتے ہیں اور کام نکل جانے کے بعد اچھوت ہو جاتے ہیں؟۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی اس دو غلی پالیسی کی وجہ سے دلت تبدیلیٔ مذہب کو مجبور ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ معمار آئین بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکر بھی منو وادی نظام سے تنگ آکر تبدیلیٔ مذہب کی تھی۔ انہوں نے اپنے سیکڑوں حامیوں کے ساتھ بودھ مذہب تبدیل کرلیا تھا۔ تمل ناڈو کے دلتوں نے ایسے وقت میں تبدیلیٔ مذہب کی ہے جب ملک پر شہریت ترمیم قانون کی تلوار لٹک رہی ہے۔اس اندیشے کی باوجود مذہب تبدیل کرنے کے بعد ان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ا ور ان کی شہریت کو مشکوک قرار دیا جا سکتا ہے۔ 400 دلتوں نے بڑی جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہندو سماج میں دلتوں کو کس طرح گھٹن ہے اور ان کی زندگی کتنی حقیر بن چکی ہے۔ بہتر ہوتا کہ سی اے اے کے تحت بیرون ملک میں رہنے والے لوگوں سےہمدردی جتانے اور انہیں شہریت دینے کے بجائے ملک میں رہنے والے دلتوں کے ساتھ ہمدردی کی جائے اور ان سے تفریق، نا انصافی و نا برابری ختم کی جائے ورنہ جب تک غیروں پر کرم اور اپنوں پر ستم ہوتا رہے گا تب تک تبدیلیٔ مذہب کا مذہب کا سلسلہ جاری رہے گا۔