Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 7, 2020

اب کی بار دہلی میں کس کی سرکار۔۔؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی / صداٸے وقت  
=============================
الیکشن کے آخری ایام میں سیاسی جماعتوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے ۔ عام آدمی پارٹی اپنے کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہی ہے ۔ تو کانگریس اپنے پندرہ سالہ دور حکومت کو یاد دلا رہی ہے ۔ کانگریس نے اپنے سینئر لیڈروں کو الیکشن میں اتارا ہے ۔ اس کا انتخابی منشور بھی دہلی کی ترقی کے تئیں پارٹی کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس کے برعکس بی جے پی کے ہاتھ خالی ہیں ۔ باوجود اس کے کہ وہ لمبے عرصے سے دہلی نگر نگم پر قابض ہے ۔ڈی ڈی اے اور دہلی پولس اس کے کنٹرول میں ہے ۔ گزشتہ 9 سال میں نگر نگم کے 109 اسکول بند ہو چکے ہیں ۔ ڈی ڈی اے اور پولس کی کارکردگی سے دہلی والے اچھی طرح واقف ہیں ۔ بی جے پی کے پاس دہلی والوں کو بتانے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ اس لئے دہلی کے بنیادی مسائل کے بجائے دفعہ 370، تین طلاق کا خاتمہ، کچی کالونیوں میں رجسٹری اور قومی مدوں سے اس نے چناؤ کی شروعات کی تھی ۔ لیکن عام آدمی پارٹی کے ذریعہ کئے گئے کاموں سے الیکشن میں پچھڑتا دیکھ بی جے پی نے اپنے آزمائے ہوئے ہتھیار نفرت اور تفریق کو چناؤ جیتنے کا ذریعہ بنایا ہے ۔

عجیب ہے کہ بی جے پی کو ہر الیکشن سے پہلے پاکستان کی یاد آنے لگتی ہے ۔ کہیں وہ حزب اختلاف کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہے تو کہیں نہرو گاندھی خاندان کا رونا روتی ہے ۔ جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان سے دوستی اور دشمنی کی مثالیں بی جے پی کے دور اقتدار میں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ محمد علی جناح کا بی جے پی کے سابق وزیر جسونت سنگھ اور لال کرشن اڈوانی کتاب لکھ کر گن گان کر چکے ہیں ۔ اٹل بہاری واجپئی نے دہلی سے لاہور کے لئے بس سروس شروع کی، کارگل کی جنگ بھی انہیں کے زمانے میں ہوئی ۔ خود نریندر مودی جی نے پروٹوکول کی پرواہ کئے بغیر پاکستان جا کر نوازشریف کی والدہ سے آشرواد لیا اور ویج بریانی کھائی ۔ انہیں نے بالاکوٹ میں ایئر اسٹرائیک کی ۔ اسی کی بنیاد پر 2019 کا الیکشن جیتا ۔ ان کے کامیاب ہونے پر پاکستان نے خوشی ظاہر کی تھی ۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے ہوئے اور ختم ہو گئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے پرامن مظاہرے کو جان بوجھ کر متشدد کیا گیا ۔ کیوں کہ اس مرکزی یونیورسٹی کے نام میں اسلامیہ لفظ آتا ہے جسے مسلمانوں پر آسانی سے چسپاں کیا جا سکتا تھا ۔ یہاں متاثر ہوئے طلبہ میں سبھی مذاہب کے طلبہ شامل تھے ۔ اس لئے جامعہ کے طلبہ پر ہوئی کاروائی کے خلاف پورے ملک کے طلبہ اور سول سوسائٹی کے لوگ سڑکوں پر آ گئے ۔ پھر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر نقاب پوشوں نے حملہ کیا ۔ جن میں سے کوئی بھی گرفتار نہیں ہو سکا ۔ دوسری طرف شاہین باغ کے دھرنے کو چلنے دیا گیا ۔ بی جے پی دہلی کے الیکشن میں اس کا استعمال کرنا چاہتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ پانچ سو میٹر میں ایک سڑک پر چل رہے احتجاج کے لئے نہ صرف دوسری سڑک بند کر دی گئی بلکہ دو کلومیٹر پہلے اور تین کلو میٹر بعد تک کے راستے بند کر دیئے گئے ۔ تاکہ عوام اور مظاہرین کے بیچ ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو ۔ جس کو بنیاد بنا کر وہ عآپ اور کانگریس کو گھیر سکے ۔ واضح رہے کہ احتجاج جس سڑک پر ہو رہا ہے اس سے لگی ہوئی آبادی مسلمانوں کی ہے ۔
اس لئے شاہین باغ بی جے پی کی انتخابی تشہیر کے مرکز میں ہے ۔ وہ شاہین باغ اور جامعہ کے خلاف نفرت کا ماحول بنا کر الیکشن کو پولرائز کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس لئے سی اے اے سے اتفاق نہ رکھنے والوں اور اس کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں کو ملک کا غدار بتایا جا رہا ہے ۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے ایک انتخابی میٹنگ میں غداروں کو گولی مارنے کے نعرے لگوائے ۔ ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے اپنے متنازعہ بیان میں کیوں کہا کہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تو شاہین باغ کے لوگ بہو بیٹیوں کو بے عزت کر مار دیں گے ۔ اس وقت مودی جی اور امت شاہ بچانے نہیں آئین گے ۔ ان سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا پولس دہلی حکومت کے ہاتھ میں ہے؟ دہلی میں ہوئے عصمت دری کے کتنے متاثرین کو مودی جی اور امت شاہ نے بچایا؟ کیا کسی بھی واقع میں شاہین باغ کا کوئی شخص ملوث پایا گیا؟ کیا دہلی کے عوام کو ڈرا کر بی جے پی ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے؟ انتخابی کمیشن نے ان دونوں کے تشہیر کرنے پر پابندی لگائی ۔ مگر بی جے پی کا تو ہر شخص اسی طرح کی زبان بول رہا ہے ۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے باہر پور میں کہا کہ ای وی ایم کا بٹن اتنے غصہ سے دبانا کہ کرنٹ شاہین باغ میں لگے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ووٹ دینے سے ہی دہلی محفوظ ہوگی اور شاہین باغ جیسے ہزاروں واقعات پر پابندی لگے گی ۔ انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ اور ملک کو بانٹنے والا بتایا ۔ وزیر داخلہ ہونے کے ناتے ملک کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ان کی ہے ۔ پھر اس طرح کی بات کہہ کر 
دہلی والوں کو کیا بتانا چاہتے ہیں؟ یوگی کہلائے جانے والے ادتیہ ناتھ شاہین باغ کے خلاف اپنی میٹنگوں میں زہر اگل رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہاں پاکستان کے نعرے لگ رہے ہیں اور ملک کو توڑنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ روی شنکر پرساد نے شاہین باغ کو مظاہرہ نہیں ایک نظریہ قرار دیا ۔ وزیراعظم نریندر مودی جی نے بھی شاہین باغ کو اتفاق نہیں تجربہ بتایا ۔ اسی لئے بی جے پی کے چھٹ بھیئے نیتا اور سمبت پاترا جیسے ترجمان نفرت کی بنیاد پر دہلی الیکشن کو پولرائز کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔
نفرت آمیز بیانات کی وجہ سے ہی جامعہ میں رام بھکت گوپال نے گولی چلائی ۔ جس میں ایک طالب علم زخمی ہو گیا ۔ لیکن وہاں موجود پولیس ہاتھ باندھے کھڑی رہی ۔ وہیں ایک اور شخص نے شاہین باغ میں آکر دو راونڈ گولی چلا دی ۔ دو فروری کو پچاس ساٹھ لوگوں کی بھیڑ نے دیش کے غداروں کو گولی مارو ۔۔۔۔۔۔کو کا نعرہ لگاتے ہوئے شاہین باغ کے احتجاجیوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی ۔ اسی طرح کی بھیڑ جامعہ بھی پہنچی ۔ بی جے پی نے دہلی کی انتخابی مہم کے لئے جو گیت جاری کیا ہے وہ بھی اس طرح کی بھیڑ کو ٹکرانے کے لئے اکسا رہا ہے ۔ این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 11 دسمبر 2019 سے 29 جنوری 2020 تک نفرت آمیز بیانات میں 800 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ مانا جاتا ہے کہ ملک میں دہلی کے عوام تعلیم اور سمجھ میں سب سے آگے ہیں ۔ یہاں مذہبی تفریق اور نفرت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ مگر منصوبہ بند طریقہ سے شاہین باغ اور جامعہ کے احتجاج کو نفرت کی علامت بنایا جا رہا ہے جبکہ ملک اور بیرون ملک کے مبصرین اسے گاندھی کا ستیہ گرہ بتا رہے ہیں ۔ وہاں ترنگا ہاتھ میں لئے حب الوطنی کے گیت گائے جا رہے ہیں ۔ قومی ترانہ، وندے ماترم اور آئین کی تمہید پڑھی جا رہی ہے ۔ قومی اتحاد اور ملک کو مضبوط بنانے والے نعرے لگائے جا رہے ہیں ۔ دانشوروں کا ماننا ہے کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی اس لئے شاہین باغ جیسے احتجاج کا استقبال ہونا چاہئے ۔ جس میں ملک کے آئین کو بچانے اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے ۔
دراصل بی جے پی اس سب کے ذریعہ رائے دہندگان کو بھٹکانا چاہتی ہے ۔ کیوں کہ دہلی میں بیس سیٹوں پر مسلم ووٹ 30 – 40 فیصد ہیں ۔ ان میں سے پانچ سیٹیں مسلم اکثریت والی ہیں ۔ بیس سیٹوں کے علاوہ بھی کئی سیٹیں ایسی ہیں جہاں ہار جیت میں مسلم ووٹ اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ دہلی میں دلت ووٹوں کی تعداد بھی قابل ذکر ہے لیکن وہ کبھی کسی ایک پارٹی کو نہیں ملتے ۔ اس لئے بی جے پی چاہتی ہے کہ کانگریس مضبوطی سے الیکشن لڑے تاکہ مسلم ووٹ عآپ اور کانگریس میں تقسیم ہو جائیں ۔ ووٹوں کی تقسیم اور پولرائزیشن سے ہی اس کی کامیابی کا راستہ آسان ہوتا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دہلی کے عوام موجودہ الیکشن میں کس کی بناتے ہیں ۔ نفرت کی بنیاد پر سماج کو بانٹنے والوں کی یا پھر اس کی جو دہلی کی فکر کرتا ہو اور اسے ایک بہتر شہر بنانے کا ارادہ رکھتا ہو ۔ ووٹوں کے بکھراؤ سے نفرت کو فروغ ملے گا جو دہلی کے حق میں نہیں ہے ۔ اس لئے موجودہ چناؤ ميں صرف سیاسی جماعتوں کی آزمائش نہیں ہے بلکہ دہلی کے عوام کا بھی امتحان ہے ۔ گیارہ تاریخ کے نتائج بتائیں گے کہ وہ اس میں کتنے کامیاب ہوئے ۔