Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 6, 2020

آوازوں سے دل بہلانے والے یہ تنہا لوگ۔۔۔۔(بی بی سی ہندی سروس کے بند ہو جانے کے ضمن میں حمزہ فضل اصلاحی کی تحریر۔)

از/حمزہ فضل اصلاحی /صداٸے وقت۔
==============================
  ۳۱؍جنوری ۲۰۲۰ء کا دن میں اور میرے جیسےکروڑوں قدامت پسندوں اور ماضی کو ڈھونے والوں کیلئے  بری خبر لے کر آیا ۔اسی دن بی بی سی ہندی کی ریڈیو نشریات بند ہوگئیں ۔  پل بھر میں ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، ایک دور چلا گیا، دور درازکے دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں میں پہنچنے والی آوازیں روٹھ گئیں ۔ لاکھوں تنہا   افراد کی زند گی کا  سہار ا چھن گیا۔  اس مہذب سماج  کے کتنے ہی تنہا اور بے یارومددگار  افراد نے ان آوازوں سے دوستی کر لی تھی ؟خود کو تھوڑی دیر کیلئے ان آوازوں سے بہلاتے تھے ، سوچتے تھے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں ، کم ازکم یہ آوازیں   اوریہ بولیاں ٹھولیاںہیں جو تھوڑی ہی دیر کیلئے سہی تنہائی کی چادر  ہٹا دیتی تھیں ۔   اسے کیا کہا جائے؟ قسمت کا کھیل بھی کہہ سکتے ہیں ، قدرت کا امتحان بھی۔ ایسے تنہا رہنے والے ہر جگہ ملتے ہیں ، شہر میں بھی رہتے  ہیں ۔ بھرے پرے گھر کے ایک کمرے میں بھی یو ں ہی پڑے رہتے ہیں بلکہ  پڑے پڑے  خود کو سڑتا ہو ا محسوس کر تے  ہیں۔    ایسا لگتا ہے کہ  ان کے جسم سے بد بو اٹھ رہی ہے ، اسی لئے تو ان کے اپنے ان سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں  ۔ غلطی سے بھی ان کے آس پا س نہیں پھٹکتے ہیں ۔
         حمزہ فضل اصلاحی۔۔ممبٸی۔

یہ تنہا لوگ  گاؤں میں ایک ٹوٹی پھو ٹی  چارپائی پر پیر سمیٹے بیٹھے رہتے  ہیں۔ بعض دفعہ اپنی روکھی سوکھی ٹانگوں  میں منہ چھپاکر خاموش رہتے ہیں۔ ان ٹانگوں پر میلی کچیلی لنگی  ہوتی ہے۔  یہ پہاڑی علاقوں میں بھی رہتے ہیں  جو کھلے میں ایک اپنے ٹرانزسٹر کے ساتھ بیٹھے رہتے   ہیں جہاں وہ   جا نوروں  اور پرند وں کی آوازیں سنتے ہیں مگر انسانی  آوازیں سننے کیلئے ان کے کان تر س جاتے  ہیں  ، وہ دن بھر میں وقفے وقفے سے  انسان کی آواز کے طور پر ریڈیو کی آواز ہی سنتے ہیں۔ اگر یہ اوران جیسے لوگ بی بی سی کی ہندی نشریات سنتے رہے ہوں گے تویہ خبر سن کر واقعی ان کا دل بیٹھا ہوگا۔انہیں کچھ نہیں بلکہ بہت  کچھ کھو نے کا احسا س ہوا ہو گا ۔  انہیں رونے کا حق ہے، ان کا رونا دھونا  بلکہ پھو ٹ پھوٹ کر رونا  سمجھ میں آتا ہے ۔ حیرت ہے کہ میرا چہرہ بھی آنسوؤں سے تربتر ہو گیا تھا ، میں بھی بچوں کی طرح زارو قطار رونے لگا  تھا، حالانکہ مجھے رونے کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ  میں بہت پہلے بی بی سی ریڈیو کی نشریا ت سے  دور ہو چکا  ہوں۔ جس دن  یہ نشریات بند ہوئیں ، اس  دن بھی  میرے پا س  ریڈیو سیٹ (ٹرانزسٹر ) نہیں تھا، میں نے  اس کے بندہو نے کا منظر   یو ٹیوب ہی پر دیکھا  ۔ پھر بھی بہت سو ں کو روتے ہو ئے  دیکھا تو میں بھی پھو ٹ پھوٹ کر رونے لگا  ۔    راجیش جو شی بی بی سی ہندی سروس کا  آخری ریڈیو بلیٹن پیش کر رہے تھے ۔ اُن کے چہرے پر اطمینان تھا ۔ اُن کی زبان سے اسی طرح  ڈھل ڈھل کر الفاظ نکل رہے تھے۔ حسب معمول انہو ں نے سرخیاں پڑھیں ۔پھر ایک  ریڈر نے  خبریں سنائیں ۔ پھر ریحان فضل آتے ہیں ۔   اپنی مخصوص آواز اور اندازمیں بتاتے  ہیں کہ بی بی سی ہندی کی ریڈیو نشریات کا ۸۰؍سالہ سفر ختم ہورہا ہے ۔  وہ   اس کےنشیب و فراز بتا تے ہیں ۔ہند ی صحافت میں  بی بی سی ہندی کے امتیاز کو مثالوں کی مدد سے واضح کرتےہیں ۔ یہ بھی بتاتے  ہیں کہ  کس طرح بی بی سی نے مشکل ترین حالات کو کو ر کیا اور  ہر صورت میں  شفافیت اور غیر جانبداری کو گلے سے لگائے رکھا ۔ ریحان فضل کا یہ حصہ ریکارڈ شدہ تھا۔  یوٹیوب اور فیس بک پر لا ئیوچل رہا تھا۔ ریڈیو پر بھی نشر ہو رہا ہے۔  اسٹوڈیو  کے ایک کونے میں بیٹھے ریحان فضل کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔ وہ آنسو ضبط کئے ہوئے بیٹھے تھے۔ ان کے کئی ساتھی مسکرارہے تھے ۔  ہنس بو ل رہے تھے مگر ریحان فضل جیسے اداسی کی مورت بنے ہوئے تھے۔ ان سےکچھ کہنے کیلئے کہا گیا تو وہ کچھ ہی کہہ  سکے ۔    اب میں اس سے زیادہ کچھ نہیں سکتا ،  آپ  ہی بولئے ،  کچھ کہئے سنئے ،  دیکھئےیہ تنہا  لو گ آپ طرف کس طرح دیکھ رہےہیں ؟
۔ حمزہ فضل   اصلاحی