Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 6, 2020

ظلم پھر ظلم ہے'بڑھتا ہے تو مٹ جاتاہے۔!!

از/شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی انوار مسجد گوونڈی ممبئی/صداٸے وقت۔
==============================
کسی بھی شے کی انتہا درحقیقت اس کے اختتام کا پیغام ہوتی ہے'،آفتاب کا عروج  زوال کی تمہید ہے'، کائینات کا یہ اصول ابتدا سے ہی جاری ہے' ہندوستان کی حکومت نے آمریت کے روپ میں جس طرح انسانیت کے ساتھ حیوانیت کا رویہ اختیار کر رکھا ہے' اور ملک کی عوام کیساتھ جس طرح غیر ذمہ دارانہ رویوں اور ظالمانہ کرادار کا مظاہرہ کیا ہے' ہندوستان کی ہزاروں سالہ تاریخ اس مثال سے خالی ہے'۔بالخصوص یوپی کی سنگھی حکومت  نے اقتدار کے نشے میں اور طاقت کے خمار میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ  سفاکیت و بربریت کا انتہائی شرمناک اور گھناؤنا کردار ادا کیا ہے ، ایک فاشسٹ نظریہ کی حکومت نے مذہبی بنیادوں پر سیٹیزن شپ پر شب خون مارا ،پورا ملک اس کے خلاف کھڑا ہوا، اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی، ایک سیکولر اسٹیٹ میں جمہوری حکومت کا یہ فرض تھا کہ وہ ان صداؤں کو سنتی،لاکھوں نوجوانوں بچوں بوڑھوں، اور خواتین کی کے مطالبات کی طرف توجہ کرتی ، مگر طاقت کے غرور  تہذیبی جنون ،اور نسلی ازم کی دیوانگی نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا،کہ حقوق کی پاسداری تو فرقہ پرستی کے نظریات کے خلاف ہے'،مگر ستم یہ ہے'کہ مرکز کی فاشزم روش سے چار قدم آگے صوبائی حکومت نے اپنے وحشیانہ سلوک، حیوانی کردار اور ظلم وبربریت کے ذریعے انسانیت کے لباس،کو اس طرح تار تار کیا ہے۔
سیکولر ازم کے اوراق کے اس طرح پرزے کئے ہیں اور انصاف ومساوات کے مندر کو اس طرح مسمار  کیا ہے'،کہ فرعونیت بھی اور ابلیسیت بھی اس کے آگے شرمسار ہے'،ملک ووطن حکمرانوں کی جاگیر نہیں ہوا کرتے کہ جس طرح چاہا اپنے خود ساختہ نظام کی صلیب پر اسے قربان کردیا ،اور عوام حکومت کی غلام نہیں ہوتی ہے کہ جس طرح وہ چاہے اس پر حیوانی قانون لاگو کردے، جب جب بھی اس کی سالمیت کو مجروح کرنے والا قانون آیا عوام اس کے تحفظ کے لئے سر بکف ہوئی، این آر سی اور سی اے اے، قانون بھی ملک وقوم کی سالمیت کے لئے سم قاتل ہے'، سو اس کی مخالفت کی آواز اٹھانا، اس کی تنسیخ کا مطالبہ کرنا، اس کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرنا، فاشزم قانون کے خلاف پر امن احتجاج کرنا قوم کا جمہوری نہیں بلکہ انسانی حق ہے'،مگر حکومت یہ حق بھی ان سے چھین لینا چاہتی ہے'، طاقت کے زور ان آوازوں پر پابندیاں لگانا چاہتی ھے، اس منصوبے کا بدترین کردار اور وحشیانہ  کھیل آج بلریاگنج اعظم گڈھ میں کھیلا گیا، جہاں پر امن طریقے سے خواتین رات میں ملک کی سالمیت اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے بیٹھی تھیں ان کے اس اجتماع سے نہ ٹریفک میں خلل تھا نہ ہی دوسرے نظام پر کوئی اثر۔۔۔مگر باوجود اس کے پوری انتظامیہ حرکت میں آگئی اور ان کے اجتماع کو منتشر کرنے کے لئے سارے حربے استعمال کیے جانے لگے۔

سخت سردی کی رات میں آخری پہر چار بجے پولیس فورس نے طاقت کا مظاہرہ کیا اور ان بے قصور خواتین پر لاٹھی چارج کرکے ظلم وبربریت کی اور اپنی نام نہاد بہادری کی شرمناک تاریخ رقم کی، بے دریغ لاٹھیاں برسائیں، آنسو گیس کے فائیر کئے،بچوں اور ضعیفوں پر حملے کئے، اور نہتے لوگوں کو خاک وخون میں تڑپا دیا۔علاقے کی بزرگ شخصیت مولانا طاہر مدنی نے انہیں کھوکھلے سورماؤں کے کہنے پر عورتوں کو ڈیڑھ گھنٹے تک سمجھایا کہ وہ احتجاج ختم کردیں،باوجود اس کے دسیوں نوجوانوں کےساتھ انہیں بھی گرفتار کرلیا اور انتہائی بے شرمی سے ان کے خلاف ایف آئی آر کی چارچ شیٹ تیار کردی، اور دہشت گردی کا لیبل ان کی ذات پر چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی۔یوگی حکومت اور نام نہاد ملک کے محافظ پولیس فورس نے انسانیت ،انصاف ،سالمیت ،جمہوریت اور مساوات کا خون کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ صرف طاقت کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں، انہیں أصولوں پر اور انہیں نظریات پر ان کا نظام حکمرانی قائم ہے'،جمہوریت ،سیکولر ازم اور ذہنی و عملی آزادی کا تصور انہیں منظور نہیں ہے'، ورنہ کون نہیں جانتا کہ پر امن احتجاج عوام کا دستوری حق ہے'اس پر ڈاکہ زنی جرم ہے'، بندوقوں کی گولیوں اور لاٹھیوں کے شور کے ذریعے اس پر پابندی لگانا ظلم ہے۔
عوام کی آوازوں کو گرفتاریوں کے ذریعے اور جیل کی سلاخوں کے ذریعے خاموش کرنا دستوری آزادی پر شب خون ہے'، لیکن حکومت کے سائے میں یہ سب کچھ ہورہاہے اور پوری قوت اور دھڑلے سے ہورہاہے، ظلم کا طوفان ہے کہ بڑھتا جارہا ہے، جبر کا سیلاب ہے'کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے'،وحشت ودرندگی حکومت کے لباس میں بالکل بے نقاب اور عریاں ہے'، اورکسی نقطۂ عمل کا یہی وہ عروج ہے جہاں سے انقلاب جنم لیتا ہے'، مظلوموں کی فریادیں اس کے لئے جرس کارواں بن جاتی ہیں، معصوموں کا خون ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے'،  اس حکومت کے ظلم کا پانی بھی سر سے اونچا ہوچکا ہے، اور یہی انتہا اس کے لئے اب زوال کا پیش خیمہ ہوگی کہ فطرت کے مطابق ظلم وجبر کی ہواؤں نے جس قدر سخت رویہ اپنایا آزادی کی لو بھی اسی لحاظ سے بڑھتی رہی، شاہین باغ کا چراغ آج مثل آفتاب ہے'اس آفتاب سے بے شمار چراغ جلے ہیں'اور تمام پابندیوں کے باوجود آج بھی روشن ہورہے ہیں'، اسی روشنی سے اقتدارحواس باختہ ہے