Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 28, 2020

عدم مساوات اور اس کے تباہ کن اثرات



تحریر /شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی /صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
=============================

کائنات کا حسن و جمال اس کے نظام کی مضبوطی ،اس کے اعتدال و توازن اور اس کے استحکام کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے'کہ اس کا وجود مختلف رنگوں،بے شمار شکلوں ،ہیئتوں اور متنوع اوصاف پر قائم ہے ،آفتاب میں جو تمازت و حرارت پائی جاتی ہے ماہتاب اس وصف سے خالی ہے'، ستاروں میں جو دلکشی ورعنائی ہے'وہ دوسرے سیاروں میں نہیں، گلشنوں میں بہاریں اسی د م سے قائم ہیں کہ وہ گلہائے صد رنگ اور شجرہائے ہزار رنگ کا مجموعہ ہیں۔ اس کے برعکس اگر تمام  پھولوں،پودوں ،شاخوں اور پتیوں میں یکسانیت ہوجائے وہ رنگ ونور میں ، ساخت وہئیت میں اور مقدار وحجم میں یک رنگ ہو جائیں تو اس چمن کی دلکشی باقی رہے گی اورنہ اس کا جمال ، 
انسانیت کا باغ ہستی  بھی اسی وجہ سے شاداب،بہار آشنا، اورزندگی سے معمور ہے کہ اس کے افراد قد وقامت، ذوق و مزاج، فطرت وطبیعت، عقل وشعور، اور رنگ ونسل کے لحاظ سے مختلف ہیں، اور طاقت وقوت، حسن و جمال،  فقر و ثروت اور ضعف و ناتوانی کے حوالے سے متنوع ہیں،  اسی کرہ ارض پر کچھ وجود ایسے ہیں جو اپنے ذہن کی سرعت، فکر کی بلندی،اور بصیرت کی گہرائی سے ماضی اور حال کے آئینے میں مستقبل کی تصویروں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں اور بے شمار ایسے بھی ہیں جن کی نگاہیں ان کے قدموں سے آگے کی چیزیں دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں،  بعض اس قدر قوت وطاقت سے لیس کہ دنیا کی پہاڑوں جیسی مخلوق ان کے شکنجے میں ،اور بعض ایسے کمزور وناتواں کہ اپنے وجود کو سہارا دینا بھی ان کے لئے محال، کسی کی طبیعت اور مزاج چٹانوں کی طرح اس قدر سخت،برف کی طرح اس قدر سرد اور شدت آمیز کہ آگ کے شعلے بھی ان کے سامنے پانی پانی ہو جائیں،اور ذوق و خیال کے اعتبار سے بہت سے اتنے نرم، اس قد ر لطیف، اور اتنے حساس کہ کلیوں کی لطافت، شبنم کی خنکی، اور  گلوں کی نازکی بھی ان پر نثار ہو جائے۔

انسانی تنوع کی اس تمہید کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے'کہ انسانوں کے درمیان افکار ونظریات کا اختلاف، عقیدہ ومذہب کا اختلاف،  تصورات وخیالات میں عدم یکسانیت ،قبیلوں اور خاندانوں کا وجود، تہذیب وتمدن ، کلچر وثقافت،  لہجہ وزبان ،روایات واقدار، اور رسوم ورواج کی بے شمار اکائیوں پر مشتمل تنوعاتی جہانوں کا ظہور لازمی امر اور فطرت کے عین مطابق ہے' باوجود اس کے انسانیت کا قافلہ ترقی کی راہوں پر انہیں خصوصیات کے ساتھ اس لیے رواں دواں ہے کہ'وہ کثرت میں وحدت کی حقیقت کو تسلیم کرکے ملک اور سماج کو اخوت ومحبت اور انسانیت والفت کا گہوارہ بناتا ہے ۔

  ملک کی تعمیر وترقی کے لئے انسانیت کی خدمت اس کی سالمیت ، افراد انسانیت کے حقوق میں انصاف ومساوات کو زینہ قرار دیتا ہے'، زندگی کے انفرادی مرحلے سے لے کر اجتماعی سطح تک تمام لمحوں میں وسعت ظرفی رواداری پریقین رکھتا ہے'، 
  اس کے برخلاف اگر کوئی فرد یہ چاہے کہ دنیا کے تمام انسان اسی کے ہم رنگ ہوجائیں، ان کے افکار و نظریات،
  ان کی روایات و اقدار،ان کے عقائد مذاہب، ان کے رسوم ورواج اس کی پسند، اس کی فکر اور اس کے نظرئے کے مطابق ہوجائیں تو یہ امر اس لیے محال اور ناممکنات میں سے ہے'کہ یہ کائینات کے نظام کے خلاف ہے'، انسانی فطرت سے بغاوت اور زمینی حقیقت سے متصادم ہے، انسانیت کی دنیا اگر تمام خصوصیات میں ہم رنگ ہوجائے ، کسی شئے میں کوئی فرق باقی نہ رہے تو روئے زمین
  کا نظام ایک لمحے کے لیے بھی جاری اور زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ پورا عالم شہر خموشاں بن کر رہ جائے گا۔۔۔

یہی وجہ ہے دنیائے انسانیت کی تعمیر وتزئین، تہذیب وترقی کے حوالے سے انتہائی جامع نظام حیات اور مستحکم دستور زندگی ‌یعنی مذہب اسلام میں انصاف ومساوات کو بنیادی حیثیت فراہم کی گئی ہے'، او ر مختلف پیرایوں اور اسالیب میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے'، اسے انسانیت کی اساس قرار دیا گیا ہے'، کہ اس نظام کا مرکزی نصب العین اور بنیادی مقاصد انسان ہی کو انسانیت سے آشنا کرانا اور اس کی حقیقت کو آشکار کرکے رفعتوں کے آسمان پر پہونچانا ہے'،ذوق ومزاج اور محسوسات ومشاہدات کے نتیجے میں بہت ساری چیزوں میں سے نظریات کا تنوع زیادہ نمایاں اور نسبتاً زیادہ ظاہر ہوتا ہے'، اس لیے ان اختلافات کو ارتقاء انسانی کا زینہ اور سبب قرار دینے کے لئے اسلام نے جس قدر وسیع النظری، رواداری، اور فکری آزادی تصور پیش کیا ہے ۔
 دنیا کے تمام مذاھب اور نظام ہائے معاشرت اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں،  
اس سلسلے میں اس کی آفاقی عالمگیری اور جامع تعلیمات کا حاصل یہ ہے'کہ انسانیت کا ہر فرد اپنے عقیدے اپنے مذہب، اپنی تہذیب و تمدن اپنی طرز معاشرت اپنی عبادات اور اپنے ان معاملات میں جو دوسروں کی اذیت کا باعث نہ ہوں مکمل آزاد ہے، اسے اپنی فکر کے مطابق عمل کرنے کا اختیار ہے'، اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر اپنی مذہبی تعلیم کی درسگاہوں اسکولوں کے قیام اپنی روایات و اقدار اور رسوم ورواج سے متعلق فنکشن کے انعقاد کا حق حاصل ہے'، کسی شخص کو کسی حکومت کو اور کسی طاقت کو یا کسی کمیونٹی کو اس بات کی قطعاَ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی انسان کو اپنی پسند کے مطابق کسی نظریہ کی قبولیت پر مجبور کرے، کسی عقیدے کو تسلیم کرنے کے لئے دباؤ بنائے، یا فکری تہذیبی اور عقائد کے حوالے سے اس پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کرے۔اس کی عبادات  میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے،  اسلام نے بالکل صاف اور واضح انداز میں فرمایا ہے کہ،،دین وشریعت میں کسی قسم کی زبردستی اور جبر نہیں ہے'(البقرۃ 256)مسیحائے انسانیت فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت کے بعد آس پاس کے تمام یہودی قبیلوں کو معاشرتی اور سیاسی معاملات سے متعلق جامع اور وسیع معاہدوں کا پابند بنایا تھا، ان معاہدوں کی ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ،، یہود ی قوم مسلمانوں کے ساتھ ایک جماعت اور گروہ کے مانند ہے تاہم یہودیوں کے لئے ان کا دین ہے'اور مسلمانوں کے لیے ان کی شریعت ہے'،، 

 فکری اور نظریاتی امور میں بقائے باہمی اور رواداری کے اصول کے علاوہ سماجی معاشرتی اور سیاسی مراحل میں بھی اسلامی نظام نے بحیثیت انسان حقوق میں برابری، آزادی رواداری اور عدل ومساوات کا جو تصور جو نظام اور جو أصول دنیائے انسانیت کو عطا کیا ہے اس میں دنیا کا کوئی نظام کوئی دستور اور کوئی منشور شریک وسہیم نہیں ہے'، علاقائیت وطنیت، اور رنگ ونسل، خاندان وقبیلے، گورے اور کالے امیر وغریب، حاکم ومحکوم، کے درمیان مساوات کے حوالے سے کسی تفریق کا یہاں گذر نہیں ہے'، مختصر سی جماعتوں کی امارت سے لیکر ملک ووطن کے اعلی سیاسی یا سماجی مناصب تک حاکمیت کا استحقاق صرف انہیں کو ہے' جو ان کی صلاحیتوں اور استعدادوں سے بہرہ ور ہیں، دین کی اہم اور عظیم الشان عبادت نماز کی امامت ایک مقدس منصب ہے'مگر اس پر فائز وہی شخص ہوسکتا ہے جو عمدہ قران پڑھنے والا ہو قطع نظر اس کے کہ وہ کس خاندان کس قبیلے اور کس علاقے سے تعلق رکھتا ہے'، اسی طرح محض دولتوں کی بنیاد پر یا طاقتوں کے ذریعے اگر کوئی چاہے کہ ملک کی زمام اقتدار پر قبضہ کرلے تو یہ اختیار اسے حاصل نہیں ہوسکتا، غرض زندگی کے تمام معاشرتی اور سیاسی میدانوں میں معیار اور پیمانہ استعداد صلاحیت، اختصاص وقابلیت اور انسانیت واخلاقیات ہے'،ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم (الحجرات) محسن انسانیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اگر معمولی سطح کا آدمی حتیٰ کہ سماج میں طبقہ اسفل شمار کئے جانے والے افراد یعنی ناک کٹا ہوا حبشی بھی تمہارے اوپر امیر مقرر کردیا جائے تو اس کی اطاعت فرمانبرداری تمہارے اوپر لازم ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آرزو ہے'کہ اگر حذیفہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالم باحیات ہوتے تو خلافت کے لئے میں انہیں کی ذات کو نامزد کرتا،
 خود بھارت کی یہ روشن تاریخ ہے'کہ سلطان شہاب الدین غوری نے اس ملک پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کی مکمل حکومت اپنے غلام سلطان قطب الدین ایبک کے حوالے کر دی تھی اور دوسو سال سے زیادہ تک پوری شان و شوکت اور انصاف ومساوات کے ساتھ شاہان مملوک نے یہاں فرمانروائی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماجی اور معاشرتی اعتبار سے بھی اسلام کی جو تعلیمات ہیں اوراس حوالے سے جو نظام اور قوانین ہیں،وہ اپنی جامعیت،کاملیت،اور
پورے عالم کے درمیان مساوات وبرابری کے حوالے سے انتہائی ممتاز،نہایت وسیع،اور امتیازی شان کی حامل ہیں،اس نظام اور اصول کی روشنی میں دنیا کے تمام انسان وہ مسلم ہوں کہ غیر مسلم، عرب ہوں یا عجم،کالے ہوں یا گورے، غریب ہوں یا امیر، آفیشیل اور اہل منصب ہوں یا مزدور، کاسٹ کے اعتبار سے سماج میں دبے کچلے ہوں یا طبقہ اشرافیہ سب برابر ہیں'، حجۃ الوداع کے موقع پر بالکل وضاحت کے ساتھ انسانیت کے مسیحا نے اس کا اعلان کیا ہے کہ،،کسی عربی کو کسی عجمی،کسی کالے کو کسی گورے پر کسی طرح کی کوئی فضیلت نہیں سوائے کردار کی بلندی، اخلاق کے جمال اور انسانیت کی برتری کے۔۔ 
 اسلام کی عادلانہ حکومت کی نگاہ میں، اور منصفانہ حاکمیت کی نظر میں ہر فرد برابر ہے'، عہدے اور مناصب کے استحقاق کی طرح عام انسانوں کے درمیان حقوق کے حوالے سے بھی اسلام میں طبقاتی تقسیم کی گنجائش نہیں ہے،امیر وغریب، خاندان وقبیلوں، افکار و نظریات ،عقائد ومذہب کے اختلافات کی بنیاد پر تفریق اور امتیاز ات کے تصور سے اسلام قطعا خالی ہے'، قانون کے نفاذ میں انسانیت کے سوا اور کوئی معیار نہیں ہے، جس طرح کسی جرم کی بنا پر ایک مزدور،اور معاشرے میں اسفل شمار کئے جانے والے طبقات کو عدالت کا سامنا کرنا فرض ہے ، ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا اختیار ہے'اور فرد جرم کے ثبوت پر سزا کا نفاذ ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح ایک دولت مند،ایک بااثر،صاحب رسوخ،اہل منصب،اور ملک کے حاکم کو بھی ان مراحل سے گذرنا لازمی ہے، اور عام ملزم کی طرح عدالت کے ایوانوں میں معمولی حیثیت میں کھڑا ہونا ناگزیر ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چوری کا ایک کیس آیا، جرم ثابت ہوا، آپ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ فرمایا، بعض اصحاب کی خواہش ہوئی کہ آپ اسے معاف کردیں،مگر اس درخواست کو پیش کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی،آپ کے چہیتے اور محبوب صحابی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس مقصد کے لیے ترجمان بنایا انھوں نے ان کی بات آپ کے سامنے پیش کردی،
اس سفارش پر آپ کا چہرہ انور غصہ سے سرخ ہوگیا،ارشاد ہوا تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ وہ قانون کے سلسلے میں لوگوں کے درمیان تفریق کرتی تھیں اہل ثروت کو جرائم میں رخصت دیتی تھیں اور غریبوں پر نافذ کیا کرتی تھیں،قسم ہے'اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی اس جرم میں مبتلا ہوتی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹا جاتا (الحدیث) اظہار رائے کی آزادی،فکر کی آزادی، نظریہ کے اختیارات،عام افراد سے لیکر اعلی مناصب اور اہل اقتدار تک کے کرداروں پر رائے زنی اور تنقید واعتراضات کا تصور اور اس کی عملی تصویر محض اسلام ہی کی تعلیمات اور کے سماجی سسٹم کا روشن عنوان ہے۔

اسلام کی یہی منصفانہ اور مساویانہ تعلیم اور اس کے متبعین کا عمل تھا جس نے صدیوں تک دنیا کے اکثر حصوں پر حکمرانی کے دوران عدل ومساوات کا پرچم بلند رکھا، اور تمام عقائد و نظریات اور مذہب وملت کو انصاف وبرابری کے حق سے آشنا کیا، 

اس کے برعکس جب انسانی وجود اپنے ہی جیسے انسانوں کے درمیان رنگ ونسل مذہب وعقائد اور خطوں وعلاقوں کے درمیان  درجہ بندی کا قائل ہوتا ہے'، امتیازات کے حیوانی اور غیر فطری تصور پر یقین رکھتا ہے'، اونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم پر ایمان رکھتا ہے'،تو فرقہ پرستی جنم لیتی ہے، نسل پرستی کرہ ارض پر نمودار ہوتی ہے، عصبیت اور انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے'، انسانیت کے ساتھ شیطانیت کا کردار اداکرنے والے یہ نظریات جب  جب زمین کے سینے پر ظاہر ہوتے ہیں، تو  ظلم وبربریت کے طوفان اٹھتے ہیں،ستم گری کا سیلاب موجیں مارتا ہے'، سفاکیت وجارحیت کا راج ہوتا ہے'، انسانیت کے ساتھ کھلواڑ ہوتا ہے'، غلامی کی زنجیروں میں انسانی اجسام موت کا انتظار کرتے ہیں، فرعونیت رقصاں اور انسانیت سہمی ہوتی ہے، امن و سلامتی، انصاف ودیانت، اخوت وہمدردی، انسانیت ومحبت،
 ایثار و قربانی،اور اتحاد رواداری کے تمام زریں اوصاف سے معاشرہ محروم ہوجاتا ہے'، اور زندگی کے تمام شعبوں میں پسماندگی کی تاریکیوں میں غرق ہوجاتا ہے'۔

بھارت میں  مسلمانوں کی حکمرانی اور ان کی فرمانروائی چند سالوں پر یا چند دہائیوں پر منحصر نہیں ہے بلکہ ان کے ادوار حکومت ایک ہزار سال پر محیط ہیں اس طویل حکمرانی کا راز اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے انہوں نے عدالت کا نظام قائم کیا، مساوات کے اصولوں پر عمل کیا،انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کی پاسداری کی، ملک کے تمام انسانوں کے درمیان رواداری کی روشن مثال قائم کی، نفرت وتعصب،اناپرستی وخود غرضی،
انتہا پسندی ونسل پرستی سے خود کو بھی محفوظ رکھا اور ملک کو بھی ان اوصاف سے پاک رکھا، نتیجتاً،ملک نے ترقی کی منزلیں طے کیں، دنیا بھر میں سپر طاقت کی حیثیت سے ابھرا،
سیاسی اقتصادی ہر لحاظ سے مضبوط ومستحکم ہوا۔۔یہ وہ حقائق ہیں جس کے انکار کی جرأت کم از کم ایک انصاف ور مورخ کبھی نہیں کرسکتا۔۔

لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ طویل عرصے کی استعماریت کی غلامی سے آزادی کے بعد جب اس ملک نے اپنی خودمختاری کے ساتھ سفر شروع کیا تو اس کا زاد راہ اس کا سرمایہ مساوات ،برابری ،جمہوریت اور سیکولرازم تھا
مگر وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے عصبیت،فرقہ پرستی اور طبقاتی درجہ بندی کے نظریات ،اور نسلی ازم، قومیت کی برتری جیسے حیوانی اوصاف کی دلدل میں گرتا چلا گیا، یہاں تک کہ اس کی پوری فضا نفرتوں کے سوداگروں کے اشتعال انگیز بیانات،اور متعصبانہ نعروں سے زہر زہر اور اس کی سرزمین منافرانہ کرداروں اور حاکمیت کے غیر منصفانہ اقدامات سے لہو لہو ہو کر رہ گئی۔
ملک کا یہ منظر نامہ درحقیقت اسی عصبیت،اورانسانوں کے درمیان تفریق اور نسلی امتیازات کا شاخسانہ ہے جس نے ابتدا ہی میں ملک کو نفرت وعداوت اور ظلم وتشدد،انتہاپسندی ومذہبی جنونیت کی سلگتی ہوئی راہوں پر کھڑا کردیا۔اور فرقہ وارانہ تصادم کے سارے دروازے چوپٹ کھول دئیے، 

  آزادی کے بعد سرحدوں کی تقسیم کے نتیجے میں بے شمار افراد نے دونوں طرف سے ہجرت کا درد سہا، مسلمانوں کی ہجرتوں کو دنیا نے دیکھا مگر بنگلہ دیش سے ملے ہوئے سرحدی علاقوں منی پور میگھالیہ اور آسام میں نقل مکانی کرنے والے بہت سے ہندو مہاجر ین کو کم ہی لوگوں نے جانا۔
  انسانیت کا تقاضا اور مساوات وہمدردی کی آواز تھی کہ علاقائیت سے اوپر اٹھ کر ان کا استقبال کیا جاتا،مگر اسلامی اصولوں سے ناآشنا ہندو قوم خود اس پر تیار نہ ہوسکی اور ان کے خلاف محاذ کھڑا کردیا، فرقہ وارانہ تشدد سے تنگ نظری کا بدترین ثبوت پیش کیا،اس سے بڑھکر ناعاقبت اندیشی اور تنگ نظری کا ثبوت وقت کی سیکولر حکومت نے ستر کی دہائی کے اوائل میں فراہم کیا کہ شہریت قانون این آر سی کے ذریعےان کی شہریت پر سوال کھڑا کرکے انتہا پسندانہ نظریات کو مستحکم کردیا، حالانکہ ملک کے آئین ودستور  کے مطابق گیارہ سال تک رہائش کے بعد مہاجرین کے حق میں ان کی شہریت کا حق خود بخود ثابت ہوچکا تھا،اور یہاں تیس سے چالیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا، مگر مسلمانوں کے تئیں عصبیت نے یہ سب کچھ غیر قانونی کرداروں کو گوارا کرلیا۔

ملک میں فسطائیت اور انتہا پسند قوتوں کو اس سے ایک روشن راستہ مل گیا سو انھوں نے اقتدار کے حصول کے بعد پورے ملک میں نافذ کرنے کا اعلان کردیا مگر آسام کے نتائج نے جب ان کے مسلمانوں کے انخلاء کے منصوبے پر پانی پھیر دیا تو سی اے اے کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کی تدبیر کی گئی، اور اس قوم کو حاشیہ پر لاکر بے وزن کرنے کی سازش عمل میں لائی گئی، دارالحکومت دہلی کے علاوہ پورے ملک میں اس غیر منصفانہ اور نسل پرستانہ قانون کے خلاف آواز اٹھی جسے خاموش کرنے کے لئے اقتدار نے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا۔

دہلی کے اندر حالیہ قتل وغارت گری اور منظم طریقے سے مسلمانوں کی نسل کشی ،خونریزی وسفاکیت، انسانی جانوں پر وحشیانہ حملے، پوری پلاننگ کے تحت، اقلیتوں کے املاک کی تباہی، آگ زنی وفائرنگ کے ذریعے قتل عام، در اصل سابقہ سیکولر حکومتوں کی چشم پوشی اور دانستہ عصبیت،وفسطائیت کے پودوں کی پرورش و پرداخت کا اندوہناک نتیجہ ہے،جس نے ملک میں ہزاروں فسادات کے علاوہ آج دہلی کو مسلمانوں کے خون سے رنگین کرڈالا ہے'، مسلم علاقوں کو شرپسندوں کے ساتھ ساتھ ملک وقوم کی نام نہاد محافظ پولیس کے ذریعے مقتل ومشہد میں بدل ڈالا ہے، جس نے خونریزیت،شیطانیت ،بربریت اور سفاکیت وجارحیت کی بدترین مثال قائم کرکے جمہوریت، رواداری مساوات وانصاف کا خون اور اخوت وانسانیت کو پوری دنیا میں شرمسار کر دیا ہے۔ 
عوام کے ساتھ برابری کا سلوک، اس کے حقوق کی یکسانیت،
رواداری کے فرائض،انصاف ومساوات کے تصور سے جب حکومتیں ناآشنا ہوتی ہیں'اور نسلی تعصب ،قومی عداوتیں، اور فرقہ پرستی جب اس کے خمیر میں داخل ہوجاتی ہے'،تو وہ قوم وملک کی نگہبان نہیں بلکہ ظلم وجبر اور آمریت کا استعارہ بن جاتی ہیں پھر وہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے انسانی سرحدوں کو پار کر کے اور انسانیت سے اتر کر حیوانیت کی سطح پر آجاتی ہیں، نہ ان کے یہاں حقوق کا پاس ہوتا ہے نہ عدالت کی عظمت کا لحاظ، نہ انسانیت کا خیال ہوتاہے نہ ہی اپنے دیانت دارانہ فرائض کا احساس۔۔۔۔۔۔

حالیہ فرقہ وارانہ قانون کے تناظر میں موجودہ اقتدار کے چہرے پر کردار کی سیاہی سے لکھی ہوئی یہ ساری داستان پڑھی جاسکتی ہے، جو پولیس کی بربریت، رہنماؤں کی اشتعال انگیز  حرکتوں، عدلیہ کے اختیارات پر شب خون،
آگ وخون کے اسٹیج پر رقص حیوانیت، پر اقتدار کے سکوت کی صورت میں بالکل نمایاں ہے۔۔

 ان تمام کرداروں اور فسطائی اقدامات کے نتیجے میں اگر اہل ستم اور اہل جفا یہ سوچتے ہیں کہ ملک سیاسی اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ترقی کی منزلیں طے کر لے گا تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے نشیمن کو نذر آتش کرنے والا درحقیقت گلستاں کی تباہی کا سامان پیدا کرتا ہے کہ اس کے شعلے گلشنوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر اسے ویران وخاکستر کردیتے ہیں، یہ فلسفہ جس قدر جلد اہل اقتدار کے ساتھ ساتھ انتہا پسند فسطائی طاقتیں سمجھ لیں ان کے لیے بھی خیر اور بقا کا ذریعہ ہے'اور ملک کی سالمیت اس کے تحفظ اور اس کی ترقی کے لئے بھی ناگزیر سامان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے چشم اشکبار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا دیکھ تو ۔۔۔۔۔سہی
یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی مسجد انوار گوونڈی ممبئی