Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 13, 2020

اعظم گڑھ۔۔شعروشاعری اور اردو ادب !!!!

از/انظر اعظمی /صداٸے وقت۔
=============================
ضلع اعظم گڑھ زمانہ قدیم سے اپنی گوناگوں خصوصیات وروایات اور تصورات وانقلابات کی وجہ سےممتاز رہا ہے - اس کے ثقافتی آثار اور علمی وسیاسی انداز نے ہندوستانی زندگی کو مختلف شکلوں میں متاثر کیا ہے -یہی نہیں بعض معاملات میں اس نے برصغیر کی تاریخ کو بھی اپنے رنگ وآہنگ سے فیض پہنچایا ہے -اعظم گڑھ کے بارے میں اقبال سہیل نے ایک مرتبہ فرمایا تھا :

*اس خطہ اعظم گڑھ پہ مگر فیضان تجلی ہے یکسر*
*جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر تاباں ہوتا ہے*
اس شعر میں اقبال سہیل اعظمی نے شاعرانہ مبالغہ آراٸی  سے کام نہیں لیا ہے ،انہوں نے اظہار حقیقت کیا ہے - اعظم گڑھ کی علمی،تمدنی،مذھبی،روحانی ، ادبی ،تاریخی اور سیاسی وسماجی خدمات پر جب نظر جاتی ہے، تو سہیل کی شعری صداقت پر ایمان لانا ہی پڑتا ہے 
اعظم گڑھ نے اردو ادب کی مختلف شاخوں میں جو علمی خدمات انجام دی ہیں وہ اہل علم سے اوجھل نہیں ہیں - اردو کے صاحب طرز نثر نگاروں میں *سرسید ،مہدی ،افادی ،ابوالکلام آزاد،ابوالحسن علی ندوی ،سید سلیمان ندوی، عبدالباری ندوی ،عبدالماجد دریا آبادی، شاہ معین الدین ندوی، ،سید صباح الدین ،عبدالرحمن،* وغیرہ نے کسی نہ کسی انداز میں اس دیار علم وادب سے روشنی حاصل کی ہے

یوں تو باشندگان اعظم گڑھ کا اردو ادب اور  شعروشاعری وغیرہ کی شہرت پورے ہندوستان میں ہے ،لیکن یہاں کا ایک ادارہ ،اردو ادب کا گہوارہ،فن شعر وشاعری کا مرکز *"دارالمصنفین اعظم گڑھ"* میں مشہور و معروف ہے ، *ڈاکٹر شعیب اعظمی* نے اس کی بڑی عمدہ منظر کشی یوں کی ہے کہ:
*دارالمصنفین ایک ادارہ تھا جسے 1914 میں شبلی نے اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھا تھا اپنی زندگی کا ماحاصل تھایہ ایک دیوبند تھا ایک ندوہ تھا ایک علی گڑھ تھا جس نے  اس دور افتادہ سرزمین میں جنم لیا تھا اور اس ضلع میں علم وادب، تہذیب وتمدن اور سیاست معیشت کا فانوس تھا جس کی روشنی سے سارا ہندوستان جگمگا اٹھا یہ ایک دنیا تھی کہ کھینچی چلی آتی تھی اور یہ ایسا مرکز تھا جہاں آئے بنا کسی کی شہرت کو چار چاند لگنا مشکل ہوجاتا تھاسید سلیمان ندوی آفتاب علم ودین اور مولانا مسعود علی ندوی ماہتاب تمدن وسیاست اس ادارے کے ناخدا تھے*( *شہر سخن ،منظور احمد ،ص ، 109* )
*سھیل احمد اصلاحی* اعظم گڑھ کے علم وادب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
*بیسویں صدی میں شبلی منزل (دارالمصنفین) کے طفیل اعظم گڑھ کی حیثیت ایک ادبی اسکول یا دبستاں کی ہوگئ تھی سید سلیمان ندوی، عبدالسلام ندوی، اقبال سہیل، منشی امین اللہ امین، مرزا احسان احمد، معین الدین، برق اعظمی، امجد علی غزنوی، ایم ایم زبیری، ڈاکٹر خلیل اعظمی،  اور وشوناتھ شیدا، وغیرہ نے اعظم گڑھ کو دلی اور لکھنئو کے دوش بدوش کھڑا کردیا تھا اور اقبال سہیل اعظمی نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ* :
*اھل اعظم گڑھ سے ہو علمی ہو تقابل کا خیال* 
*اللہ اللہ یہ غرور وکبریائے لکھنئو*( *نوائے مشتاق ،سہیل احمد اصلاحی ، ص 20*)۔

سید سلیمان ندوی اعظم گڑھ کی شعری مرکزیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
*اعظم گڑھ ہے تو چھوٹا شہر اور دور افتادہ بھی -مگر لوگ افتاں وخیزاں یہاں پہنچ ہی جاتے ہیں اور قدر داں بھی ان کو مل جاتے ہیں خصوصا مولانا سھیل اور مرزا احسان احمد جیسے شناس جوہری بھی اس اجڑے دیار میں آباد ہیں*
شعلہ طور ،جگر ( *مرادآبادی،مقدمہ ،سیدسلیمان ندوی ،*)
 ضلع اعظم گڑھ میں شعراء میں *علامہ شبلی نعمانی، اقبال سہیل اعظمی، برق اعظمی، کیفی اعظمی، مولانا عبدالسلام ندوی، خلیل الرحمن اعظمی، اختر مسلمی، مرزا احسان احمد، عزیزالرحمن فاروقی، معین الدین، منیف اعظمی، امجد علی، ڈاکٹر معظم جے راج پوری، ڈاکٹر خلیل اعظمی،  ڈاکٹر اشفاق احمد اعظمی، فیض الرحمن اعظمی، اعجاز اعظمی،  انجم اعظمی،  سحر اعظمی، بسمل اعظمی، گیان چند گیان، مختصر اعظمی، مشتاق احمد، ناطق اعظمی، اور یحیی اعظمی* وغیرہ کے نام نمایاں طور پر لئے جاسکتے ہیں ان شاعروں کے قدم شعلہ نوائیوں اورسخن سنجیوں سے سے بزم سخن آباد اور شعروشاعری کی فضاپرشور تھی ضلع اعظم گڑھ میں اردو شاعری کے خدمت گزاروں اور سخن طرازوں کی اتنی  بڑی تعداد ہے کہ کسی اور ضلع میں شاعروں کی اتنی زیادہ تعداد غالبا نہیں ہوگی 
انگریزوں کے دور اقتدار میں اردوادب کے جو اساطین علم ورجال عصر پیدا ہوئے اور جن کی شخصیت وعلمیت کا پر آج بھی اردو زبان وادب پر نظر آتا ہے ان میں سے بیشتر اسی دیار علم وفن کے فیض علمی سے گرانمایہ ہوئے مثلا اس دور کے گل سر سبد *سرسید* تھے جنہوں نے اردو نثر کو اس قابل بنایا کہ وہ علم کی دوسری شاخوں کے مسائل وموضوعات پر اپنی زبان کھول سکے ،انہوں نے *مولانا عنایت رسول* سے استفادہ کیا تھا -اسی طرح *مولانا فاروق* کے شاگردوں میں *مولانا شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا جواد بہاری ،اکبر الہ آبادی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی ،مولانا جمال الدین افغانی، جسٹس محمود، مولانا عثمان سلفی، اقبال سہیل، مولانا نیاز فتح پوری* وغیرہ کے نام ملتے ہیں ان میں سے سب کے سب اپنی علمیت اور شخصیت کے اعتبار سے اپنے اپنے دور میں ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے -
*مہدی افادی* نے  اردو کے عناصر خمسہ میں *ڈپٹی نذیر احمد* کو شامل کیا ہے جو کہ *مولانا احمد علی چریا کوٹی* کے شاگرد *ڈپٹی نصر اللہ خان* کے تلمیذ رشید تھے اس طرح *نذیر احمد* بیک واسطہ اعظم گڑھ ہی کے تربیت یافتہ ہوئے ،گویا اردو کے عناصر خمسہ کا غالب حصہ (محمد حسین اور حالی کو چھوڑ کر ) *سرسید، شبلی، نذیر احمد* اعظم گڑھ کے اثر پذیر تھے 
الغرض باشندگان اعظم گڑھ نے اردو زبان وادب پر بہت سے کارنامئے جلیلہ انجام دئے ہیں مگر افسوس اردو کی ترقی وترویج کی تاریخ لکھنے والوں نے اعظم گڑھ کی خدمات کے ذکر سے عموما پہلو تہی کیا ہے -اور نہ ہی کسی نے اس طرف تحقیقی انداز میں توجہ دی.