Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 13, 2020

ویلنٹاٸن ڈے یعنی حیا باختگی کے میلے کا دن۔

از/ظفر امام قاسمی /صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
------------------------------------------------------
  خالقِ ارض و سماں نے اس جہانِ رنگ و بو میں آباد ہزاروں مخلوقات میں سے حضرتِ  انسان کے قافلےکو تمغۂ اشرفیت سے سرفراز کیا ہے ، اس کے دلوں میں عقل و خرد اور شعور و آگہی کی قندیلیں روشن کی ہیں ، ننگ و ناموس اور شرم و حیا کے بیش بہا زیور سے اس کے وجود کو آراستہ کیا ہے ، اس کے لئے نیکی و بدی اور برائی و بھلائی کی گزرگاہوں میں نشانِ امتیاز نصب کردئے ہیں ، جسے انسان اپنی عقل و شعور کے مقیاس پر پرکھ کر اپنے کاروانِ حیات کے لئے آئینہ اور نمونۂ عمل بنا سکتا ہے ، جبکہ دوسری دیگر مخلوقات کو ان مذکورہ خصوصیات سے یکسر عاری اور بالکل اپاہج بنایا گیا ہے ، شرم و حیا کی زریں ردا سے ان کے سراپے کو محروم کردیا گیا ہے ، بریں بنا وہ نہ کسی ضابطۂ اخلاق سے آگاہ ہیں اور نہ ہی کسی آئینِ حیات کے مکلف ، وہ بس اصولِ زندگانی اور قوانینِ بندگانی سے یکسر پرے جینا جانتے ہے ، وہ اپنے دلوں میں یہ باور کرلیتے ہیں کہ زندگی بس نام ہی ہے ، کھانے ، پینے ، کودنے ، پھاندنے اور موج مستی کرنے کا ، لہذا بد سے بد افعال کو کرتے ہوئے بھی انہیں نہ کسی طرح کی جھجھک محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی کسی لعنت کی پرواہ ؛
    لیکن! بسا اوقات عقل و شعور اور شرم و حیا کے زیورِ بےبہا سے مزین ابنائے آدم اور بناتِ حوا جذبات کی رَو میں بہہ کر ردائے عصمت وعفت کو تار تار کرتے ہوئے بے شرمی ،  حیاباختگی اور سِفلہ پنی کا کھلے بندوں کمالِ ڈھٹائی کے ساتھ کچھ اس طور پر مظاہرہ کرنے لگتے ہیں کہ شاید وہ بےعقلی و نا سمجھی کی ریس میں ننگ و عار سے محروم چوپایوں کو بھی مات کردے ، اسی کا ایک نمونہ انسانی سماج میں ‘‘ویلنٹائن ڈے‘‘ کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے ، جس کے زہرناک جراثیم آج کے ہمارے جدت پسند کلچر ، ماڈرن سماج اور مغرب پرست سوسائٹی کا جزءِ لاینفک بن کر رہ گئے ہیں؛
‘‘ویلنٹائن ڈے‘‘ کیا ہے؟ تو سنئے! ویلنٹائن ڈے مذہبِ اسلام سے متصادم غیروں کا ایک تہوار ہے ، جو ہرسال فروری کی ١۴/ چودہ تاریخ کو پوری دنیا میں بےانتہا جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ، ایک دوسرے کے سامنے اظہارِ محبت کیا جاتا ہے ، گلے شکوے دور کئے جاتے ہیں ، نیرنگ زمانے کی ایجاد کردہ حیا سوز رسمیں ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ، ساتھ مرنے اور ساتھ جینے کی قرار داد پاس ہوتی ہیں ، تجدیدِ محبت کا ایک گھناؤنا کھیل عمل میں لایا جاتا ہے ، نامحرم لڑکے لڑکیاں بےمحابا پارکوں میں ملتے ہیں ، ایک دوسرے کو محبتی کارڈ اور پھولوں کے گُلدستے پیش کرتے ہیں ، اور اِدھر شیطان بھی کمین گاہ میں گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے ، وہ اپنی شاطرانہ چالوں سے دونوں کے دلوں میں گندے و سوسے اور ناپاک خیالات کا ایک طوفان کھڑا کردیتا ہے اور اس کے بعد سرِعام عصمت فروشی اور حیا باختگی کا جو بازار گرم ہوتا ہے کہ بس ألأمان و الحفیظ....
ظفر امام قاسمی 

    ویلنٹائن ڈے کی لعنت کی ابتدا کہاں سے ہوئی ، اس بارے میں وثوق سے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی تاریخ دانوں نے اپنے اپنے گمان کے بموجب مختلف اور نوع بنوع قیاس آرائیاں کرکے صفحاتِ تاریخ میں من گھڑت روایات و خیالات کی جھڑیاں لگادی ہیں ، تاہم کوئی بھی خیال درجۂ اعتماد اور رتبۂ وثوق کی منزل تک نہیں پہونچ سکا ہے؛
      چنانچہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار ‘‘لُوپر کیلیا‘‘ کی صورت میں ہوا ، یہ تہوار ١٣/ سے ١٥/ فروری تک منایا جاتا تھا ، اس روز قدیم رومی باشندے اپنے دیوتاؤں سے بدی کی طاقتوں سے نجات چھڑانے اور زمین میں زرخیزی و شادابی کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، اس تہوار میں ادا کی جانے والی رسومات سراسر اسلامی نقطۂ نظر کے متصادم تھیں ، تہوار کے آغاز پر رومی باشندے دو بکرے اور ایک کتا ذبح کرتے تھے ، اس دوران قدیم رومی لڑکیاں اپنے نام پرچیوں پر لکھ کر ایک بڑے سے ڈبے میں ڈال دیا کرتی تھیں ، پھر وہاں لڑکے آتے اور ان میں سے ایک ایک پرچی نکال لیتے ، جس کے ہاتھ میں جس لڑکی کے نام کی پرچی آتی تھی وہ اس کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرلیتا تھا ، رومی لوگ یہ تہوار ‘‘لوپا‘‘ نامی دیوی کی نسبت مناتے تھے ، کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مادہ بھیڑیا تھی ، جس نے دو شیرخوار یتیم بچوں کو اپنا دودھ پلایا تھا ، اسی بھیڑیا کے نام پر اس کو ‘‘لوپر کیلیا‘‘ یعنی‘‘بھیڑیوں کا تہوار‘‘کہا جاتا ہے؛
   جبکہ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ قدیم رومی باشندے فروری کے وسط میں ایک تہوار مناتے تھے ، جس میں کنواری لڑکیاں محبت کے خطوط لکھ کر کسی گلدان میں ڈال دیا کرتی تھیں ، پھر لڑکوں کی ٹولیاں ان میں سے ایک ایک خط کا انتخاب کرتی تھیں ، اور جس کے پاس جس کے نام کا خط نکلتا تھا ، شادی سے پہلے اس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے جنسی تعلق استوار کیا جاتا تھا ؛
   لیکن! اس کے متعلق جو ایک غیر مستند خیالی داستان زبان زدِ عام ہے ، اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری تھا ، جو ایک راہبہ کی چشمانِ فسوں ساز اور کاکلِ دراز کا اسیر ہوگیا تھا ، چونکہ کلیساؤں کے پاپاؤں نے بزعمہائے خویش راہبوں اور راہبات کا نکاح ایک شجرِ ممنوعہ قرار دے رکھا تھا ، اِدھر ویلنٹائن کی تشنہ لبی اپنے درجۂ کمال پر پہونچ چکی تھی ، وہ بزمِ تصور میں کبھی اپنی معشوقہ کی بانہوں میں جھولا جھولنے لگتا ، کبھی اس کی شربتی آنکھوں میں جھانک کر اپنی بےقرار روح کو تسکین کا سامان فراہم کرنے کی کوشش کرنے لگتا اور کبھی اس کے گلابی ہونٹوں پر اپنی انگلیوں پھرانے لگتا ، پھر جب اس کی بےقرار روح آپے سے باہر ہونے لگی تو اس نے کمالِ چالاکی سے ایک دامِ فریب بچھایا اور اپنی معشوقہ کو اپنی شکارگاہ تک لانے کے لئے ایک من گھڑت خواب کی تصویر سازی کی ، اس کے بعد اپنی معشوقہ سے کہنے لگا کہ :- ‘‘مجھے ایک خواب دکھایا گیا ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ فروری کا ایک دن ایسا ہے کہ اگر اس میں صنفی ملاپ بھی کرلیں تب بھی کچھ گناہ نہیں‘‘ راہبہ بھی اس کے جھانسے میں آگئی ، اور پھر دونوں جوشِ عشق میں سب کچھ کرگزرے ، جب کلیسا کے پاپاؤں کو یہ بات معلوم ہوئی تو کلیسا کی قدیم روایات کی ہتک کے الزام میں انہیں قتل کردیا گیا ، پھر بعد میں کچھ منچلوں نے بدنامِ زمانہ ‘‘ویلن ٹائن‘‘ کو شہیدِ محبت کی مسند پر بٹھاتے ہوئے اس کی یاد میں دن منانا شروع کیا ، جس کا نام ‘‘ویلنٹائن ڈے‘‘ رکھا گیا جو آج صدیوں کے بعد بھی پوری آب و تاب کے ساتھ برقرار ہے ، بلکہ مادیت پرستی ، حیا رانی اور ماڈرن زدگی کے اس پُرآشوب دور میں اس نے روحِ ثقافت کا درجہ حاصل کرلیا ہے ، جس کے زہرناک عناصر پوری فضا کو مسموم بنائے ہوئے ہیں؛
      اگر ہم بنظرِ غائر اس کی بنیادی وجوہات پر غور کریں تو یہ بات جگ آشکار ہوکر ہمارے سامنے آجائیگی کہ اس کی سب سے بڑی بنیادی وجہ اور خشتِ اول مخلوط تعلیم گاہیں ہیں، لبرل ازم کے پروردہ طبقے اور مغربیت کے دلدادہ روشن خیال گروہ ان مخلوط دانش گاہوں میں بڑے شوق و وارفتگی کے ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں ، جہاں یہ بچے اور یہ نونہالانِ قوم تعلیم کے نام پر بڑی بےحیائی اور شرم رانی کی تخم ریزی کرتے ہیں ، اِدھر ایک دوشیزہ کے جوَبن میں ابھار آنے لگتا ہے ، اس کی رعنائی و دلکشی میں موسمِ بہار کے پُرکیف جھونکے قصیدہ سنج ہونے لگتے ہیں اور اس کے امنگوں اور ولولوں کی دنیا پُرمسرت نغموں کی گونج سے آباد ہونے کو بےقرار ہونے لگتی ہے اور اُدھر کسی لڑکے کی اٹھتی ہوئی جوانی اس کی خوابگاہوں میں دستک دینے لگتی ہے جس کے نتیجے میں اس کی بیتاب نگاہیں اپنے خوابوں کی رانی کو تلاش کرنے لگتی ہیں ، دونوں کے خیالات اس درجہ متناسب اور متساوی ہوتے ہیں کہ کسی بہانے ان کی آنکھیں چار ہوتی ہیں ، نگاہوں سے نگاہوں کا تصادم ہوتا ہے اور پھر بالآخر قوم و وطن کے مستقبل کا یہ معمار اس دوشیزہ کی چشمانِ فسوں ساز اور گیسوئے سنبل کے سحر میں ایسا مسحور ہوجاتا ہے کہ اس سے رستگاری کی اسے کوئی راہ ہی نہیں سوجھتی ، اور پھر داغ دار محبت کا یہ سلسلہ کاغذ کے ایک پرچے سے شروع ہوجاتا ہے ، بات جب کچھ اور آگے بڑھتی ہے تو پھولوں کے گلدستوں سے اس محبت کو مہمیز کیا جاتا ہے ، اور پھر اس کے بعد ویلنٹائن ڈے کے موقع پر جو کچھ ہوتا ہے اسے صفحۂ قرطاس پر نقل کرنا گویا قرطاس کی توہین کرنا ہے؛
     بہت افسوس ہوتا ہے جب ویلنٹائن ڈے کے موقع پر عصمت و حیا کی پیکر بناتِ حوا یوں اپنی ردائے حیا کو تار تار کرکے اپنے عاشقِ بسمل کی بانہوں میں جھولتی ہوئی اس کے  ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھاتی ہیں ، اور اس دن چند پُھسپُھسے وعدے کے عوض اپنی عفت و عصمت کو نیلام کردیتی ہیں ، اور یہ افسوس اس وقت فزوں تر ہوجاتا ہے جب اسلام کی مقدس شہزادیاں اور فاطمہ بتول کی نام لیوا مسلم بہنیں اس مکروہ دن والے قبیح اور غلیظ عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ، یقینا ایسی لڑکیاں اور ایسے لڑکے مذہبِ اسلام کے باغی ہیں ، دینِ اسلام کے مشمولات سے انہیں کچھ لگاؤ نہیں؛
     یاد رکھیں! کہ حیا یہ انسان کا سب سے بڑا زیور ہے ، اسلام میں جتنی تعلیم حیا کی دی گئی ہے اتنی کسی اور چیز کی نہیں ، حیا کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے محبوب پیغمبر جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘ ایمان کے ستر شعبے ہیں ، اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے ‘‘ ایک عمومی بات کے بعد خصوصیت کے ساتھ ‘‘حیا‘‘ کا ذکر کرنا اس کی افادیت و اہمیت کی بین دلیل ہے ، اور حیا کہتے ہیں ایسی چیز کو کہ آدمی اس کی بدولت ہر بری چیز سے رکا رہے { اللہ ہمیں حیا والی زندگی نصیب کرے }
        الغرض فرضی محبت کا یہ مکروہ سفر کتابوں کی مقدس درسگاہوں سے اٹھان پاکر بتدریج پھولوں کی کیاریوں تک جا پہونچتا ہے ، جس کے نتیجے میں پیدا شدہ لعنت کو یا تو اس کائناتِ رنگ و بو میں درآمد ہونے سے پہلے ہی نابود کردیا جاتا ہے یا پھر رسوائی اور جگ ہنسائی کے خوف سے راہِ محبت کے راہی ہی اس جہانِ فانی سے سدا کے لئے اپنا رشتہ منقطع کرلیتے ہیں اور اس طرح ان کی عبرتناک محبت کی داستان محض ایک فسانۂ ماضی بن کر رہ جاتی ہے؛ {أعاذنا اللہ منہ و إیاکم.... آمین }
                         ظفر امام کشن گنجی
                         دارالعلوم بہادرگنج 
                          کشن گنج ، بہار