Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, February 10, 2020

مدد کیسے اترتی ہے ؟؟؟


آصف انظار ندوی/صداٸے وقت۔
==============================
چھ تاریخ کو دلی سے لوٹا،سات کو ایک کاروباری میٹنگ میں حیران وپریشان بیٹھا تھا کہ مولانا شاہد قاسمی صاحب کا فون آیا جلدی محمد علی پارک پہونچیں ،کچھ عمائدین شہر انتظامیہ کے دباؤ میں دھرنا بند کرانا چاہتے ہیں، جیسے تیسے میٹنگ سمیٹ کر محمد علی پارک پہونچا،جاننے والوں نے گھیر لیا پھر بہت سے انسانوں کی بھیڑ لگ گئی،مختصر احوال کابھی خلاصہ یہ تھا کہ عوام اور خاص طور پر خواتین نے عمائدین کو
بہت کچھ سخت سست کہا،وہ نامراد لوٹ گئے،
ہم نے لوگوں سے گزارش کی کہ کسی بھی قیمت پر مظاہرہ روکنا نہیں ہے،

آٹھ تاریخ کو اترپردیش کوارڈینیشن کیمٹی کی میٹنگ میں شرکت کے لیے لکھنؤ میں تھا،میٹنگ کے بعد گھنٹہ گھر حاضر ہوا،
پھر سیدھے کانپور،راستے میں ہی تھا کہ کانپور سے کچھ منفی خبریں آنے لگی اسی بیچ کئی فون احوال کی تفتیش کے لیے آئے،مختلف شہروں کے احباب کی فکرمندی سے دل بہت خوش تھا،
سیدھے محمد علی پارک پہونچا،بری سی خبر کان میں زہر گھولنے کو موجود تھی ،یعنی انتظامیہ کسی نہ کسی طرح چالبازی سے میمورنڈم دے دلاکر احتجاج کو ختم کرنے کا اعلان کرواگیا
بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں سنتا رہا،پھر یہ سوچ کر مایوسی سے منہ لٹکائے واپس ہوگیا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا،کیونکہ میمورنڈم تو عورتوں نے ہی دیا ہے،،پھر معلوم ہوا کہ میمورنڈم عجیب کھیل تماشا تھا،ہم احتجاج NPR NRC CAAکے خلاف کر رہے ہیں اور میمورنڈم کسی اور ہی معاملے کا تھا،، اور یہ باریک نکتہ ہماری مائیں بہنیں خوب اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ ان کے ساتھ فریب ہوا ہے، لھذا تشویش میں مبتلا رہیں۔۔۔۔
ادھر ہم لوگ اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح کل پھر سے پارک میں خواتین آجائیں
ڈاکٹر ظفر اکبر صاحب کے ساتھ مل کر خاکہ تیار کیا،،، رات کے گیارہ بجے کاعمل تھا،ہم امید کر رہے تھے کہ کسی نہ کسی طرح سوخواتین تو اکٹھا ہوہی جائیں گی،،،
ہماری میٹنگ ختم ہوئی اور تھوڑی ہی دیر میں فون آگیا کہ عورتیں تو چوبیس گھنٹے کے لئے پارک میں جم گئی ہیں۔۔بے اختیار ہماری زبان سے۔۔۔اللہ اکبر بلند ہوا،،وہاں سے نکل کر سیدھے پارک پہونچے، اندرون پارک خواتین جوش میں بیرون پارک مرد خروش میں، پڑوس کی ایک مسجد کے امام صاحب کچھ سمجھانے چلے ،مگر ایسے وقتوں میں جب دانشِ عوام نے مولانا ابو القاسم نعمانی اور۔۔۔ارشد ومحمود مدنی صاحبان کو ناکوں چنے چبوا دیئے تو گلی محلے کے مولوی صاحب کی بےتکی بات قوم کیسے برداشت کرلیتی۔۔۔۔امام صاحب کو رخصت کیا۔۔۔۔عوام کے جوش و جذبے کی تحسین کی اور اس اطمینان کے ساتھ واپس ہوئے کہ کل سونا ہے کیونکہ جس کام کی پلاننگ بھی وہ ہوچکا تھا،
اس لیے طاقت خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔
خدا خدا کرکے دوسرا دن‌شروع ہوا۔۔۔لمحہ لمحہ کٹ کٹا کرشام ہوئی اور پھر انتظامیہ کے ساتھ
ایک نیا ڈرامہ شروع ہوا۔۔۔ڈرامے کے ایک کردار کو جو اصلا عوامی نمائندے کے طور پر کام کرتاہے لوگوں نے دلال گھوشت کر دیا،،لھذا وہ تمغۂ امتیاز لئے رخصت ہوئے ،،
عشاء بعد کچھ کٹھی میٹھی یادیں تازہ کی۔۔۔۔اور گیارہ بجے سوگئے۔۔۔
صبح سارے منظر تتر بتر تھے رات کے پچھلے پہر ظالم پولس نے خواتین کو ظلما پارک سے اٹھا دیا،،،محلے پڑوس سی بچے اٹھوا لئے ،
ایس ایس پی صاحب نے ہمارے بارے میں کچھ خاص ارشاد فرمایا تھا اس لئے ہم  پارک کے بالکل نزدیک جانے سے روکے گئے،کہ مبادا ہم اٹھ جائیں یا اٹھا لیے جائیں۔۔۔۔
صبح کا ماحول پوری طرح پولس کی کنٹرول میں تھا،پارک میں گھسنے کی ہرکوشش ناکام تھی
ناچار ہم اپنے ایک بزرگ ساتھی کے ساتھ کچہری گئے کہ وکلاء سے مدد لی جائے کہ وہ شام میں دس بارہ کی ٹیم بناکر تشریف لائیں
وکلاء نے حامی بھری شام میں پانچ بجے کا نظام طے ہوا
ہم کچہری سے نکلے اور محمد علی پارک پہونچے مگر پہونچ نہ سکے کیونکہ بازی پلٹ چکی تھی
اب ہزاروں کی تعداد میں عورتیں سڑک پر آگئیں تھیں اور پولیس ہاتھ پیر جوڑ رہی تھی کہ مائیں بہنیں پارک میں چلی جائیں،پرامن احتجاج کریں،وغیرہ وغیرہ

رات کے ڈیڑھ بجے ہیں میری آفس تک آزادی کے نعرے لے اور ترنگ لئے آرہے ہیں،،
کانپور کی انتظامیہ خود ہی پارک میں ٹینٹ لگوا رہی ہیں تاکہ احتجاج کرنے والوں کو کوئی دشواری نہ ہو۔۔۔۔۔

گزشتہ تین دنوں میں ہماری ایک بھی تدبیر کارگر نہیں ہوئی ہے،اللہ کی تقدیر ہرطرف بکھری ہوئی ہے اور بات ویسے سے بہت زیادہ اچھی ہوئی ہے جیسا ہم چاہتے تھے

انتظامیہ کو چار گھنٹے کے احتجاج سے اختلاج تھا چوبیس گھنٹے کا ہوگیا، ان کو پارک سے الجھن تھی اب سڑک پر معاملہ ہے،

اسی پوری بات کو اللہ کی مدد کہتے ہیں۔۔