Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 22, 2020

ہندوستان کے عظیم مفکر و سیاستدان مولانا ابو الکلام آزاد۔.....یوم وفات ٢٢ فروری کے ضمن میں مولانا آزاد پر ایک تحریر۔

از۔محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ، پنجاب/صداٸے وقت۔
=============================
ہندوستان کی سیاست میں جن مسلم رہنماؤں نے آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد اپنا ایک خاص مقام و مرتبہ قائم کرتے ہوئے ملک و قوم کے لئے مثالی کام انجام دیئے ہیں. بے شک ان میں مولانا ابو الکلام آزاد کا نام سر فہرست آتا ہے .
مولانا آزاد جنھیں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت منفرد قسم کی بے مثال خوبیوں و اوصاف سے نواز رکھا تھا. جہاں وہ ایک بڑے انشا پرداز، وہیں آپ جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی و سیاست دان اور ساتھ ہی ایک بہترین مفسر بھی تھے۔ اگر آج ہم ملک کی موجودہ صورتحال و مسلم قیادت کا بغور مشاہدہ و مطالعہ کریں تو مولانا آزاد کے بعد ہندوستان کو اور خصوصاً یہاں کے مسلمانوں کو ایک بھی دور اندیش لیڈر ایسا نہیں ملا جو مسلمانوں کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرتے ہوئے انکی بات کو بر سر اقتدار ایوان کے سامنے رکھ سکے خیر لمبی بحث کی بات ہے. زیر بحث مضمون ہمارا مقصد مولانا کی حیات و فن کے حوالے سے مختصراً معلومات مشترکہ کرنا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کا اصل نام ابوالکلام محی الدین احمد آزاد تھا لیکن ان کو شہرت و مقبولیت ابوالکلام آزاد کے نام سے ہی ملی. آپ (پیدائش 11 نومبر، 1888ء وفات 22 فروری) سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے. ( یہاں قابل ذکر ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد، آزادی کے بعد ہندوستان کے پہلے و تعلیم تھے اس وجہ سے ان کے یوم پیدائش کو 11 نومبر کو پورے ملک میں قومی سطح پر یومِ تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے) آپ کے والد محترم محمد خیر الدین کا تعلق مدینہ سے تھا آپ کے آبا ؤ اجداد کا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے اور پھر یہیں پر مستقل سکونت اختیار کر لی تھی. ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی یعنی 1857ء میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑی تھی اور پھر کئی سال عرب میں بسر کیے کیونکہ مولانا کی پیدائش مکہ مکرمہ کی ہے اس لیے آپ کا زیادہ تر بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔
آپ بہت ذہین تھے مطالعہ کا بے حد شوق تھا آپ کے بچپن کا ای واقع بہت مشہور ہے کہ آپ کو بچپن میں جو جیب خرچی کے پیسے ملتے آپ ان کو جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر ان کی موم بتیاں خرید لاتے اور رات کو لحاف میں موم بتی جگا کر پڑھتے چنانچہ ایک اسی طرح پڑھنے کی کوشش میں اپنا لحاف جلا لیا تھا. پڑھائی میں ذہین تھے جس کے نتیجے میں چودہ سال کی عمر میں ہی علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی مذید ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کر دیا تھا جس کی اس وقت اردو زبان کے پہلے نقاد مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی تھی ۔ جبکہ آپ نے 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ بھی اپنی طرز و نوعیت کا پہلا پرچہ تھا۔ دراصل یہ پرچہ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ ادب کا ایک بہترین و سنجیدہ نمونہ تھا۔

مولانا آزاد کا بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر، انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)، تزکیہ، ترجمان القرآن سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ الہلال البلاغ نامی اردو کا ہفت روزہ اخبار جولائی 1912ء میں کلکتہ (کولکتہ) سے جاری کیا۔ یہ اخبار ٹائپ میں شایع ہوتا تھا اور تصاویر سے مزین وسجا ہوتا تھا۔ اس میں مصری اورعربی اخبارات سے بھی خبریں ترجمہ کرکے شائع کی جاتی تھیں۔ اخبار میں زندگی سے جڑے تمام طرح کے شعبہ سے وابستہ جن میں مذہب، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ، تاریخ، ادب اور حالات حاظرہ پر معیاری مضامین اور فیچر چھپتے تھے۔ یہ اخبار تحریک خلافت اور سول نافرمانی کا زبردست مبلغ و موید تھا۔ الہلال پریس سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی۔ اس کے بعد 18 نومبر 1914ء کو مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی گئی جو جمع نہ کرائی جاسکی اور اس طرح اس وقت یہ اخبار بند ہو گیا۔ اس کے تقریباً تیرہ سال بعد یعنی 1927ء میں الہلال پھر نکلنا شروع ہوا . مگر صرف چھ ماہ کے لیے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ان کی اشاعت 25 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اردو زبان میں اپنی اعلیٰ تزئین و ترتیب مقالوں اور تصاویر کے لحاظ سے الہلال صحافتی تکنیک میں اس وقت انقلابی تبدیلیاں لایا جس کی مثال اس سے پہلے کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
آپ نے اپنے زمانہ اسیری کے دوران جو خط لکھے وہ بھی آج اردو ادب بیش قیمتی سرمایہ ہیں. یعنی " غبار خاطر مولانا آزاد کے ایک ایسے ہی خطوط کا مجموعہ ہے۔ دراصل یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔ یہ سبھی خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیانی زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا. مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری پہلے کی نسبت کچھ زیادہ ہی سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے جو راستہ ڈھونڈنکالا وہ خط لکھنے کا مشغلہ تھا اور انھوں نے خطوط لکھ کر اپنے ہی پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا اورخط غبار من است این غبار خاطر سے اسے تعبیر بھی کیا ۔ ایک خط میں شیروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔

 تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آ پ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔  ایک جگہ قیدو بند کی صعوبتوں کے با وجود غبارِ خاطر کے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ "جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو ، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو ، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں ، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہو، جہاں دوپہر ہر روز چمکے ، شفق ہر روز نکھرے ، پرند ہر صبح و شام چہکیں ، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و عشرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے ۔مولانا عبد الماجد دریا آبادی  الہلال  کے اسلوب پر تبصرہ فرماتے کچھ اسطرح سے اظہار خیال فرماتے ہیں کہ "خدا جانے کتنے نئے اور بھاری بھرکم لغات اور نئی تیرکیبیں نئی تشبیہات ،نئے استعارے اورنئے اسلوبِ بیان ہر ہفتہ اس ادبی اور علمی ٹکسال سے ڈھل ڈھل کر باہر نکلنے لگے اور جاذبیت کا یہ عالم تھا کہ نکلتے ہی سکّہ رائج الوقت بن گئے ، حالیؔ و شبلیؔ کی سلاست و سادگی سرپیٹتی رہی، اکبرؔ الٰہ آبادی اور عبدالحق بابائے اردو سب ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے ۔ 
جبکہ معروف نقاد پروفیسر رشید احمد صدیقی مولانا کے اسلوب بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ" مولانا کا اسلوبِ تحریر وہ ان کی شخصیت تھی اور ان کی شخصیت ان کا اسلوب دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ، صاحبِ طرز کی ایک نشانی یہ بھی ہے ۔ مولانا کے لکھنے کاانداز، لب و لہجہ اور مزاج قرآنِ پاک سے لیا ہے جو ان کے مزاج کے مطابق تھا ، وہی اندازِ بیان اور زورِ کلام جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑوں پر رعشۂ سیماب طاری کردیتا ہے ۔معروف مترجم و نثر نگار سید سجاد حیدر یلدرم مولانا کی نثر کے تعلق سے کہتے ہیں کہ "میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن عربی میں نازل نہ ہوتا تو مولانا ابوالکلام کی نثر منتخب ہوتی یا اقبال ؔ کی نظم۔ 

جبکہ جدوجہد آزادی میں اپنا نمایاں کردار ادا کرنے والے معروف شاعر و مجاہد آزادی مولانا حسرت ؔ موہانی اپنی شاعری کو مولانا کی نثر کے سامنے بے حقیقت خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ، 
جب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرتؔ میں بھی مزہ نہ رہا
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ایک جگہ مولانا کی نثر خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
 فقروں میں مسلح ،اور جوش ترتیب فوج کاسا جلال اور شکوہ ہے ، الفاظ میں نقارہ و دھل کا شور وہنگامہ ، جملوں میں آتش خانوں کی سی گرمی ہے ، جس نے مصلحتوں کی برف کو پگھلادیا ۔

ہندوستان کی سیاست پر جن مسلم لیڈروں نے اپنی نمایاں چھاپ چھوڑی ان میں مولانا ابو الکلام آزاد کا نام سنہری الفاظ میں درج ہے آپ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر کے عہدہ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے دو بار قومی صدر بھی منتخب ہوئے۔ آزادی کی تحریک میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے جوشیلے انداز بیان والی تقریروں کے ذریعے اہل وطن میں ایک نئ روح پھونک حصول آزادی کے لیے بیداری پیدا کی . یہی وجہ کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور بابائے قوم مہاتما گاندھی مولانا ابو الکلام آزاد کی بہت قدر کرتے تھے اور ملک کے ہر مسئلے پر آپ کی رائے لیتے تھے. 
آپ کی یومِ پیدائش 11 کو نومبر قومی سطح یومِ تعلیم کے طور پر پورے ملک بھر میں نہایت عقیدت سے منایا جاتا ہے آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ہندوستان میں مختلف تعلیمی ادارے ان کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں جو ملک کے گوشے گوشے میں علم و ادب کی روشنی پھیلا کر ملک سے ناخواندگی کو دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ان میں خصوصی طور پر مندرجہ ذیل اداروں کا نام لیا جا سکتا ہے جیسے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،(MANNU) (MANIT) بھوپال، مولانا آزاد میڈیکل کالج نئی دہلی، مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز، نئی دہلی، مولانا آزاد اڈوکیشن فونڈیشن، نئی دہلی وغیرہ وغیرہ۔

مولانا ابو الکلام آزاد، آزادی کے قریب گیارہ برس بعد اس دارِ فانی سے 22 فروری 1958 کو ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہو گئے. جہاں انکی موت سے ملک کو بے حد نقصان پہنچا، وہیں پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی مولانا کی موت گہرا صدمہ پہنچا تھا کیوں کہ ایک لمبے عرصے تک مولانا ابو الکلام آزاد پنڈت جی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے دوستوں کی طرح اپنی ہر بات مشترکہ کر لیتے تھے. مولانا ابو الکلام آزاد کی وفات سے ملک کے مسلمانوں کو بھی ایک کبھی نہ پورا ہونے والا ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا . اب آپ سوچیں گے کہ مسلمانوں کو کیونکر نقصان ہوا. یہاں ایک مثال دینا چاہیں گے بے شک مولانا سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے لیکن اس کے باوجود آپ مسلمانوں کے لیے درد مند گوشہ ضرور موجود رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب تقسیم وطن کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ درپیش ہونے کو تھا تو مولانا ابو الکلام آزاد نے ایک مردِ مجاہد کی طرح آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا یا۔

آپ کی موت پر آغا شورش کاشمیری نے ایک نظم میں جو کہ تھا اس کے چند اشعار آپ قارئین بھی دیکھیں کہ :
عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں 
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقینی نہیں ہے!

یقیناً مولانا ابو الکلام آزاد کی موت سے جہاں ملک نے ایک نایاب ہیرا کھویا ہے وہیں مسلم قوم نے گویا اپنی آواز کھوئی، مطلب مسلمانوں نے اپنے ایک فعال وقابل رہنما کو کھویا. جس کی بھرپائی آج تک نہیں ہو پائی. لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس مرد مجاہد نے وطن عزیز کی بقا کی خاطر بے شمار قربانیاں دیں آج انھیں ایک طرح سے دانستہ یا نا دانستہ طور پر فراموش کیا جا رہا ہے. !!