Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, February 22, 2020

امام الہند مولانا ابوالکلا آزاد کے یوم وفات ٢٢ فروری کے موقع پر خصوصی تحریر۔۔جن کا مشن ”قرآن فہمی تھا۔


از/سمیع احمدقریشی:9323986725
              صداٸے وقت۔
==============================
مولاناآزاد کے دادامولانامحمدہادی دہلی کے مشہورعلمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے،مولاناکے والدخیرالدین کے نانامولانامنورالدین،شاہ عبدالعزیزدہلوی جیسے جیدعالم کے شاگردتھے۔مولاناخیرالدین کے داداشاہ محمدافضل علم وطریقت دونوں میں یکساں تھے۔۱۸۵۷؍کے المیےکے بعدمولانا خیرالدین نے مکہ معظمہ کوہجرت کی۔وہاں شیخ محمدطاہروتری کی بھانجی عالیہ سے شادی کی۔مولاناآزادکی ولادت ۱۸۸۸؍ میں ہوئی۔مولانا خیرالدین نے اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان آگئےاورکلکتہ میں مقیم ہوئے۔مولاناآزاد کی تین بہنیں اورایک بھائی تھی۔مولانا سب سے چھوٹے تھے،انکی ساری تعلیم گھرپرلائق اساتذہ سے ہوئی۔۱۶؍برس کی عمرمیں درس نظامی کی تعلیم سے فارغ ہوگئے اورخوددرس دیتے تھے۔عام طورپرطلبااس عمرمیں درس نظامی کاکورس مکمل نہیں کرپائے۔۱۹۰۳؍میں ۱۴؍سال کی عمران کازلیخابیگم سے عقدہوگیا۔مولاناآزادعلماکے قدامت پرست خاندان کے چشم وچراغ تھے تقلیدجہاں  ایک اہم چیزتھی۔ کم عمری ہی سے انہیں اپنے قریبی حالات ہرسوچنے سمجھنے کی عادت تھی۔ایک جگہ لکھتے ہیں’’واقعہ یہ ہے کہ ابھی میری تعلیم ختم نہیں ہوئی تھی اورزیاہ سے زیادہ میری عمر۱۳؍سال کی تھی کہ میرادل اچانک اپنی موجودہ حالت اوراردگردکے منظرسے اچاٹ ہوگیااورایسامحسوس ہونے لگاکہ میں کسی اچھی حالت میں مبتلانہیں ہوں۔یہ بے اطمینانی بڑھتی گئی حتی کہ مجھے ان ساری باتوں سے جولوگوں کی نظروں میں انتہادرجہ عزت احترام کی باتیں تھی ایک طرح کی نفرت ہوگئی اورمیں اندرہی اندران باتوں پرشرم اورذلت محسوس کرنے لگا،اب جولوگ میراہاتھ چومتے تھے تومجھے محسوس ہوتاکہ گویاایک بہت ہی سخت برائی کاکام ہورہاہے،چنددن پہلے ہی یہی منظرمیرے لئے نہایت فخروغرورکاباعث تھا‘‘(ذکرآزادصفحہ ۲۵۶)
مولاناآزادبے پناہ علمی ودینی خصوصیات کے حامل تھے،علم وفن ادب وانشا،فلسفہ وحکمت ،قرآنی علم ومعارف،صحافت وخطابت،تحقیق میں یکتاتھے۔عربی وفارسی اوراردو پردسترس اورفرانسیسی وانگریزی زبان پرعبورتھا۔مولاناآزادمیں مسلمانوں کی ہمدردی کوٹ کوٹ کربھری تھی۔مسلمانوں کی سیاسی وسماجی ابتری پرانہیں گہرارنج تھا۔امت مسلمہ کی بنیادی ابتری کوانہوں نے قرآن وسنت سے دوری پرشناخت کیا،یہ کام دوسروں کیلئے آسان نہ تھا۔مولاناآزادبذات خود آفاقی انداز نظر،تاریخی بصیرت قوت عمل اوربے پناہ بلندکردار سے شرابورتھے،دین داری اوراتباع سنت میں نمایاں تھے۔علماوقت کی بڑی تعدادنے مولاناآزادکے بتلائےہوئےراستوں کی حمایت کی ان راستوں پروہ چلے،راستہ کیاتھا،وہی آج سے چودہ سوسال پہلے اللہ کے پیارے نبیﷺکے ذریعہ پوری انسانیت کودکھلایا۔جب تک مسلمان اس پرسختی کے ساتھ کاربندرہے توپوری دنیامیں سرخرورہے،ان کاسربلندرہا،دنیاکی تاریخ کے روشن باب بن گئے۔
وہ زمانے میںمعززتھے مسلماں ہوکر
اورتم خوارہوئے تارک قرآن ہوکر
مولاناآزادچاہتے تھے کہ بنام مذہب ہم بہت سے باتیں مسلمانوں کی عملی زندگی میں گھس آئی ہیں وہ دورہوں،اس امرسے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ مسلمانوں میں موجودہ رسم ورواج ہندوؤں کے میل جول سے آئی ہیں۔ مسلما نوں نے جب ہندوستان فتح کیاتومفتوح قوم کے رسم ورواج سے واقف ہونیکی ضرورت ہوئی۔واقفیت کیساتھ میل جول بڑھاتو خودبخود مفتوح قوم کے رسم ورواج فاتح قوم کے افعال پرقبضہ کرناشروع کردیا۔بادشاہ اکبر کا دین الہی نے یہاں تک ترقی کی کہ ہندوؤں کے رسم ورواج پرحائل ہوکرمسلمانوں میں غیرمحسوس طریقہ پرانکواختیار کرنے کامیلان پیداکردیا،مذہبی کمزوری نے بہت سے توجہات پیداکردیئے،دیکھنے والا کوئی نہیں ، کبھی وہ قدیم مسلمان نہیں سمجھ سکتا،جنہوں نے ہندوستان فتح کیاتھا،اس خراب کاتجزیہ کرتے ہوئےمولاناآزادلکھتے ہیں’’سب سے بڑی وجہ ان بے ہودہ رسم ورواج کے طبیعت ثانیہ ہونیکی وجہ یہ ہوئی کہ مذہبی توجہات اور علماکی غفلت نے عوام کواچھاموقع دے دیاکہ وہ انہیں داخل مذہب سمجھ کر ہرمسلمان کے لئے لازمی سمجھ لیں۔بعض رسومات ایسے تھے جن سے علمااورواعظین کوبالخصوص مالی منفعت تھی اوراس لئے یہ منفعت انہیں اعلان حق سے بازرکھتی۔ایک مدت تک جب کسی قسم کی اصلاح نہ کی گئی توان کےطبیعت ثانیہ میں کیادیرلگتی۔مولاناآزادتعلیم کی برکات سے واقف تھے لیکن اس بات سے متفق نہ تھے کہ نئی تعلیم کی اشاعت سے خود بخود سدھارکاکام ہوتارہے گاچنانچہ وہ لکھتے ہیں’’تجربہ نے ثابت کردیاکہ قدیم رسم ورواج جوخاندان میں نسل بعدنسل قائم ہوتے چلے آتے ہیں کبھی تعلیم سے دورنہیں ہوسکتے۔سوسائٹی کی وباخاندانی اثرپرغالب آجاتا ہے ۔ تعلیم بے شک ایک قسم کااحساس پیداکردیتی ہے لیکن ایک زبردست تحریک کی محتاج ہوتی ہے۔جب تک وہ تحریک طبیعت میں آمادگی نہ پیداکردے طبیعت کسی چیزکے ترک کرنے پرراضی نہیں ہوتی۔اسی تحریک کانام اصلاح کی کوشش ہے اوراب وہ وقت آگیاہے کہ اس کی کوشش کی جائے۔اب وہ زمانہ نہیں رہاکہ فضول گفتگو وبحث میں وقت ضائع کیاجائے بلکہ جوکچھ کرناہے اسے شروع کردیاجائے ۔
مولاناآزادخلوت کے نہیں جلوت کے آدمی تھے۔صرف غوروفکر نہیں ساتھ ہی ساتھ عمل کے آدمی تھے۔اسوقت کے مذہبی علمااورمذہبی اداروں سے قریبی تعلقات تھے کئی دینی مدارس قائم کئے،اہل حدیث جمیعتہ علما اور دیگراسلامی مذہبی تنظیموں واداروں کے اجلاس کوخطاب کیا،ندوۃ العلما،دارالعلوم دیوبندتشریف لائے،مولانا حسین احمدمدنی،مولانامحمدطیب ،مولاناسیداحمداسحاق ،مولاناعنایت اللہ کی معیت میں دارالعلوم دیوبندکی سیاحت کی۔مولاناآزادکوقرانی فکروعمل سے بڑی رغبت تھ اپنے ہرعمل کو قرآن وسنت کے تابع رکھتے تھے اسی بات کوامت مسلمہ کیلئے دنیاوآخرت کی سرخروئی کیلئے ضروری سمجھتے تھے۔ایک مرتبہ کسی کے کہنے پر مولانا متشرع بھی نہیں توفوراً حضرت شیخ الہندمولانامحمودالحسن نے یہ شعرپڑھا۔
کامل اس فرقۂ زہاد میں اٹھا نہ کوئی 
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے 
اورپھر فرمایا’’میں ’الہلال‘کیوں نہ پڑھوکہ یہ پہلارسالہ ہے جس نے ہم کوجہادکاسبق یاددلایاجوہمارا فریضہ تھااورہم بھول گئے تھے۔‘‘
مولاناآزادکاغیرمعمولی کارنامہ قرآن پاک کاترجمہ وتفسیرہے یہ آخرانسانوں کیلئے راہ ہدایت ہے تویہ ضروری ہوجاتاہے کہ مسلمانوں کے دل ودماغ انسانوں کے راہ ہدایت کیلئے اللہ کی کتاب قرآن کوجوپیارے نبی ﷺ پررب کائنات نے اتاراعام مسلمانوں کوانکی آسان اورسادہ زبان وبہترین اسلوب بیان کیساتھ مسلمانوں میں ترجمہ وتفسیرکے ساتھ پیش کیاجائے۔مولاناآزادنے قرآن اورسیرت النبیﷺ پرکم عمری ہی سے معرکتہ الاراہ تفاسیراورمضامین لکھے بالخصوص اپنے اخبارات ’الہلال‘اور’البلاغ‘ کے جاری کرنے میں جومقاصدتھے اس میں انہوں نے اسے ترجیحات میں رکھاجسے عوامی مقبولیت ملی وہ بھی غیرمعمولی ،جواسوقت تک کسی بھی اردواخبارات تک کونہیں ملی تھی۔انکی تفسیروترجمہ’’ترجمان القرآن‘‘وقت کی ہم تصنیف ہے،علما ودین درس وتدریس میں ’’ترجمان القرآن‘‘کواولیت دیتے آئے ہیں۔مولاناابوالحسن ندوی رقم طرازہیں’’میں نے یہ جلد(ترجمان القرآن) بڑے ذوق وشوق سے پڑھی اس سے بہت بڑافائدہ اٹھایا‘مولاناآزاد کافہم دین قرآنی بڑااورغضب کاتھا،اللہ نے دنیامیں جہالت،ظلم وستم،غلامی واستبدادکودورکرنے کیلئے متعدد دورمیں انبیا و رسول بھیجے،ان پرمتعددآسمانی کتاب انسانوں کی ہدایت کیلئے نازل کی۔عرب جہالت،ظلم وستم میں یکتاتھے،قدم قدم ہرلمحہ فحاشی،جوا،عریانیت مادی پرستی،کمزوروں کوستایاانکااستحصال کرناسمیت دنیابھرکی خرافات عام تھی۔ عربوں کی یہ جہالت آج بھی ضرب المثال ہے۔اللہ نے ان برائیوں،خرافات،شیطانیت کوختم کرنےکیلئے انسانیت کی ہدایت کیلئے قرآن پاک کانزول فرمایا۔آپﷺ کے فکروعمل نے جاہل سرکش عربوں کی زندگی میں انقلاب پیداکردیا۔ایک زبردست تحریک سے چندسالوں میں یہ جاہل سرکش عرب دامن مصطفیﷺ کے سائے میں آکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئےاوروہی دنیاکی سب سے زیادہ مہذب قوم بن گئے۔جاہل عربوں نے قرآن کوسمجھااسے اپنی زندگی میں عملی سطح پراپنایا،ان کاعظیم الشان کارنامہ ہے۔تاریخ عالم میں آج بھی مستندومحفوظ ہےجس کے قائل  دنیاکے بے شمار غیرمسلم سیاست داں،دانشور،محقیق،میڈیکل سائنس کے ماہر و سرکردہ افراد ہیں۔شاعراسلام ڈاکٹرمحمداقبال کی کلیات ،سیدسلیمان ندوی کی سیرت النبیﷺ،مولانا الطاف حسین حالی کی مسدس حالی،مولانا مودودی کی تفسیر’’تفہیم القرآن،وغیرہ مسلمانوں کی فلاح وبہبوداصلاح و نجات کیلئے اہم معرکتہ الااراتصانیف میں اسی طرح امام الہندمولانا آزادکی قرآن کی تفسیر’’ترجمان القراان‘‘بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔
مولاناآزاد کسی مدرسہ یادارالعلوم سے فارغ ہوکر علماکی صف میں شامل نہیں ہوئے،ان کی ساری ساری تعلیم گھرہی پرمستندعلماکی نگرانی میں ہوئی،وہ ایک جیدعالم بنے۔ندوۃ العما،دارالعلوم دیوبندجیسے معروف دینی مدارس سے فارغ نہیں ہوئے۔اسکے باوجودایک عالم نے ان کےعلم کاسکہ مانا۔اگرمولاناکسی مذہبی درس گاہ سے فارغ ہوئے ہوتے تو شایدمولانا پربھی مسلک کالیبل لگاکر تنگ نظر اپنی تنگ نظری کاثبوت دیتے۔ان کاعلمی قداور بھی گھٹادیتے۔مولانا کسی لیبل کے آدمی نہ تھے ان کے سامنے صرف اورصرف قرآن وسنت کی ہی اہمیت وافادیت تھی۔زندگی کے آخری لمحوں تک وہ اپنے فکروعمل سے امت مسلمہ کوقرآن وسنت کی راہ دکھاتے رہے۔ بدقسمتی سے مولانا صرف اٹھارہ پاروں کاہی ترجمہ وتفسیرکرسکے۔زندگی نے مزیدمہلت نہ دی اور۲۲؍فروری ۱۹۵۸؍کواپنے خالق حقیقی سے جاملے۔بعض سیاسی تعصبات کی بناپر برصغیرمیں مولانا کاعلمی ودینی قدگھٹ کررہ گیااگروہ کانگریس میں نہ گئے ہوتے تو انکاعلمی اوردینی قدآج کہیں بلندماناجاتا۔تحریک آزادی میں موثررول اداکرنے کیلئے مولاناکانگریس میں شامل ہوئے۔حریت اورانسانی آزادی کااسلام بہت بڑانقیب ہے۔ کروڑو ں انسانوں کوغیرملکیوں کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے کیلئے کانگریس میں شمولیت اختیار کی شریعت کوپیش نظررکھاتو کیاجرم تھا؟ مولاناآزادہمہ گیراوصاف اورکمالات کی بنیادپرہمیشہ یادرکھے جائیں گے۔مولاناکی ذات باصفات کاتذکرہ اب ہماری قومی وملی زندگی کابیش قیمت سرمایہ ہے۔ہماری آنیوالی نسلیں اپنی ترقی اوربہترین مستقبل کیلئے اس سے استفادہ کریں گی۔